کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 90
((لما کان لیلۃ اسری بی انتھیت إلی بیت المقدس فخرمہ جبریل الصخرہ بأصبعہ وشد بہا البراق۔))[1] ’’جب وہ رات آئی جس میں مجھے سیر کرایا گیا، میں بیت المقدس پہنچا اور جبریل نے ٹیلے میں اپنی انگلی سے سوراخ کرکے اس سے براق کو باندھ دیا۔‘‘ اس واقعہ کا ذکر صحیح مسلم کی اس طویل حدیث میں بھی آیا ہے کہ جو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے۔ (۱۶۲) مذکورہ بالا حدیثوں کے علاوہ مسند امام احمد میں مشہور تابعی عبید بن آدم سے حسن سند کے ساتھ یہ مذکور ہے کہ خلیفہ دوم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صخرہ کے پاس ایک جگہ یہ فرما کر نماز پڑھی تھی کہ ’’میں وہاں نماز پڑھوں گا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی۔‘‘ (۲۶۱) ان تفصیلات سے اس محرک کو سمجھا جاسکتا ہے جس نے عبد الملک بن مروان کو گنبد صخرہ یا مسجد صخرہ تعمیر کرنے پر آمادہ کیا تھا اور اس طرح اس الزام کا پول کھل جاتا ہے کہ اس نے گنبد صخرہ اس لیے تعمیر کرایا تھا کہ لوگوں کو حج بیت اللہ سے پھیر کر گنبد صخرہ کا حج کرنے پر آمادہ کرے۔ (۳) تیسر الزام: گولڈ زیہر نے امام زہری پر تیسرا الزام یہ لگایا ہے کہ وہ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کی فرمائش اور حکم پر حدیثیں وضع کرتے تھے جس کا اعتراف بقول اس کے انھوں نے خود کیا ہے، جیسا کہ معمر بن راشد نے ان سے روایت کی ہے: ((کنا نکرہ الکتاب، حتی أکرھنا علیہ الأمراء، فرأیت أن لا أمنعہ مسلمًا۔))[2] ’’ہم لکھنے کو ناپسند کرتے تھے، یہاں تک کہ امراء نے ہمیں اس پر مجبور کردیا، لہٰذا میں نے مناسب خیال کیا کہ اس سے کسی مسلمان کو منع نہ کروں ۔‘‘ امام زہری کے اس قول کا جو غلط مطلب گولڈ زیہر نے نکالا ہے اس کو سمجھانے کے لیے قدرے تفصیل درکار ہے۔ جیسا کہ تدوین حدیث کی بحث کے موقع پر ان شاء اللہ پوری تفصیل سے یہ واضح کروں گا کہ صحابہ اور تابعین کے دور میں حدیثوں کو قلم بند کرنے کا رواج نہیں تھا، بلکہ ان کو زبانی یاد کرنے پر اکتفا کیا جاتا تھا اور حدیث کی تعلیم و تعلم کی مجلسوں میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آپس میں سننے اور سنانے اور ان کے مذاکرے اور تکرار کے موقعوں پر ذہن اور حافظہ میں محفوظ ذخیرۂ حدیث پر نظر ثانی اور مراجعہ کیا جاتا تھا۔ اور جو لوگ ازراہ احتیاط حدیثیں قلم بند بھی کرتے تھے وہ افادۂ عام کے لیے نہیں ، بلکہ تاکید مزید کے لیے، جس سے رجوع کرنے کی شاذو نادر ہی ضرورت پڑتی تھی۔
[1] ۴۷، المستدرک ۳۴۲۲۔ [2] سیر أعلام النبلاء ج۶، ص ۱۴۹، بحوالہ ابن سعد فی الطبقات ص ۲۲۵، ج۲۔