کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 85
کر اس کے بارے میں ان کی رائے مانگی تھی، اگر وہ اس کو صحیح قرار دے دیتے یا کم از کم اس کی صحت و سقم کے بارے میں اپنی لاعلمی ہی کا اظہار کردیتے تو اس کی بھی مراد پوری ہوجاتی اور ان کی دنیا بھی بن جاتی، مگر نہیں ، انھوں نے نہ صرف یہ کہ اس کو ’’باطل‘‘ کہہ کر اس کے حدیث ہونے کا انکار کردیا، بلکہ ایک موقع شناس اور مخلص داعی حق کا کردار ادا کرتے ہوئے اور ایک صالح بنی اور خلیفہ کی مثال دے کر اپنے حق میں خود فریبی میں مبتلا ہونے سے اس کو بچا لیا۔ یہ بروقت اور برمحل تنبیہ اس قدر پُر تاثیر ثابت ہوئی کہ وہ پکار اٹھا: دراصل لوگ ہمیں ہمارے دین سے پھیر دینا چاہتے ہیں ۔ ولید کی یہ اثر پذیری اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خلفائے بنوامیہ بددین اور حق دشمن نہ تھے۔ جیسا کہ شیعہ فرقے نے ان کی تصویر پیش کی ہے، بلکہ اپنی بعض سیاسی غلطیوں کے باوجود خدا ترس اور صالح و مخلص مسلمان تھے اور صلاح و تقویٰ کی صفات سے موصوف تھے۔ (۲) دوسرا الزام:… یہودی مستشرق گولڈ زیہر نے امام زہری پر دوسرا الزام یہ لگایا ہے کہ انھوں نے اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کو خوش کرنے کے لیے وہ حدیث گھڑی ہے جس میں عبادت کی نیت اور ارادے سے صرف تین مسجدوں ؛ مسجد حرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد اور مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لیے سفر کرنے کی اجازت دی گئی ہے اورجس حدیث کے الفاظ ہیں : ((لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد؛ المسجد الحرام، ومسجد الرسول صلي اللّٰه عليه وسلم والمسجد الأقصٰی۔))[1] ’’صرف تین مسجدوں کے سفر کے لیے کجاوے کسے جائیں ؛ مسجد حرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد اور مسجد اقصیٰ۔‘‘ گولڈ زیہر نے مشہور شیعہ مؤرخ احمد بن جعفر بن وہب یعقوبی متوفی ۲۹۲ھ مطابق ۹۰۵ء کی کتاب تاریخ الیعقوبی سے یہ واقعہ جن الفاظ میں نقل کیا ہے ان کا ترجمہ درج ذیل ہے: عبد الملک بن مروان نے عبد اللہ بن زبیر کے زمانۂ فتنہ میں لوگوں کو حج بیت اللہ سے روک دیا تھا اور مسجد اقصیٰ کے اندر گنبد صخرہ تعمیر کرادیا تھا تاکہ لوگ اس کا حج کریں اور کعبہ کے بجائے اس کا طواف کریں ، پھر اس نے چاہا کہ وہ لوگوں کو گنبد صخرہ کے حج پر مذہبی عقیدے کی بنیاد پر آمادہ کرے، اس مقصد کے لیے اس نے اس دور کے معروف و مشہور محدث زہری کو اس مسئلے میں حدیث وضع کرنے پر تیار پایا اور انھوں نے اس مقصد کے لیے جو حدیثیں گھڑیں ان میں سے ایک حدیث: ((لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد، مسجدی ہذا، والمسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ۔)) ہے اور دوسری حدیث ((الصلاۃ فی المسجد الاقصی تعدل ألف صلاۃ فیما سواہ۔))مسجد اقصیٰ میں ایک نماز اس کے سوا دوسری مسجدوں میں ادا کی جانے والی ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔[2]
[1] صحیح بخاری : ۱۱۸۹، صحیح مسلم: ۱۳۹۷۔ [2] الوضع فی الحدیث ص ۱۸۸۔۱۸۹، تاریخ الیعقوبی ج۳، ص ۸۰۷۔