کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 55
الی الاسلام اور اس سبقت سے محرومی کے باوجود یہ دونوں اس مقدس جماعت، صحابہ ہی کے افراد ہیں ، چنانچہ سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ پہلے ایمان لانے والوں ، ہجرت کرنے والوں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کا ذکر کرنے اور ان کا حقیقی مقام و مرتبہ بیان کرنے کے بعد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْ بَعْدُ وَ ہَاجَرُوْا وَ جٰہَدُوْا مَعَکُمْ فَاُولٰٓئِکَ مِنْکُمْ﴾ (الانفال:۷۵) ’’اور جو ان کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا وہ تم ہی میں سے ہیں ۔‘‘ مہاجرین اور انصار میں جن خوش نصیبوں کو سبقت الی الإایمان کا درجہ حاصل تھا، انہی میں ان کے بعد آنے والوں کو شامل کرنے کے لیے ان کے حق میں صرف ’’اتبعوھم‘‘ کی تعبیر نہیں اختیار فرمائی گئی ہے، بلکہ ’’اتبعوھم باحسان‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بعد میں آنے والے ایمان لانے والوں کی ’’تبعیت‘‘ میں حسن عقیدہ اور حسن عمل سے موصوف ہیں اس طرح جہاں صحابہ کرام کے تمام طبقات اور وہ تابعین، تبع تابعین اور تبع تبع تابعین ایک ایسی مقدس جماعت قرار پائے جس سے اللہ راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئی، وہیں صحابہ کرام کے علاوہ تابعین، تبع تابعین اور تبع تبع تابعین ہیں جو لوگ حسن عقیدہ اور حسن عمل میں صحابہ کرام کے نقش قدم پر نہ چلے وہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کی نعمت سے محروم رہے۔ میں نے سورۃ التوبہ کی آیت میں ’’اتبعوھم بإحسان‘‘کی تعبیر سے صحابہ کرام کے بعد تابعین، تبع تابعین اور تبع تبع تابعین کے وجود کا جو دعویٰ کیا ہے اس کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے جو ابوسعید خدری، ابن مسعود، ابو ہریرہ، عائشہ اُمّ المومنین اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث امام بخاری اپنی صحیح میں تین جگہ لائے ہیں ؛ کتاب الجہاد؛ باب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب، حدیث نمبر ۲۸۹۷ کے الفاظ ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((یأتی زمان یغز وفئام من الناس، فیقال: فیکم من صحب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ؟ فیقال: نعم۔ فیفتح علیہ، ثم یأتی زمان، فیقال: فیکم من أصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ؟ فیقال: نعم۔ فیفتح، ثم یأتی زمان، فیقال: فیکم من صحب صاحب أصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ؟ فیقال: نعم فیفتح۔)) ’’ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں (مسلمانوں ) کی ایک جماعت جہاد کے لیے نکلے گی اور اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا بھی ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف صحابیت حاصل ہے؟ تو جواب دیا جائے گا: ہاں ۔ اس پر شہر کا دروازہ ان کے لیے کھول دیا جائے گا، پھر ایک دوسرا زمانہ آئے گا، اور ان