کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 539
اس عنوان سے ’’سلفیت‘‘ کے خلاف بوطی کی شدید نفرت و کراہیت کی بو آتی ہے ، اگرچہ ’’مرحلہ زمنیہ‘‘ کے ساتھ ’’مبارکہ ‘‘ کا اضافہ کرکے انہوں نے اس شدت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن کتاب کے اندر انہوں نے دین میں شامل کر دی جانے والی بدعتوں کا ، جن میں سے بعض شرک کی شکل اختیار کر چکی ہیں ، جس قوت و زور سے دفاع کیاہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’’سلفیت‘‘ کو مبارک ہرگز نہیں سمجھتے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ’’سلفیت‘‘ مسلمانوں میں بنائی جانے والی نت نئی تحریکوں ، جماعتوں اور تنظیموں کی طرح کوئی تحریک ، جماعت اور تنظیم نہیں ہے ،بلکہ سلف سے نسبت کی وجہ سے اس مسلک یا طریقے کا نام ’’سلفیت‘‘ یا سلفی طریقہ ہے ،دوسرے لفظوں میں اسلام سے وابستگی رکھنے والی جس جماعت کے عقائد براہ راست کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں اسی کا نام سلفی جماعت ہے اس جماعت کی پہچان یہ ہے کہ یہ اپنے عقیدہ و عمل میں سلف صالح کے طریقے کی متبع ہے اور سلف سے مراد صحابہ کرام اور ان کے طریقے پرعمل پیرا لوگ ہیں اور قیامت تک انہی لوگوں کا یہ نام اور وصف رہے گاجو صحابہ کرام کے طریقے پر عمل پیرا رہیں گے ۔
جب یہ معلوم و مسلم ہے کہ قرآن و حدیث دونوں محفوظ ہیں اور قیامت تک محفوظ رہیں گے ، کیونکہ ان کے محفوظ رہنے پر اسلام کی بقا موقوف ہے تو پھر قیامت تک سلفی جماعت بھی موجود رہے گی اور اس کی تعداد میں کمی بیشی سے قطع نظر اس کے وجود سے یہ دنیا کبھی خالی نہیں ہو گی۔
دراصل سلف مسلمانوں کے ہراول دستہ سے عبارت ہیں اور قرآن کے مطابق سلف سے مراد وہ مہاجرین و انصار ہیں جو سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ، پھر جو لوگ ان کے بعد آئے اور عقیدہ و عمل میں مہاجرین اور انصار کے طریقے کی پیروی بھی کی سلف میں شامل ہیں ۔یوں تو یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ، لیکن خصوصیت کے ساتھ اسلام کی ابتدائی تین صدیوں چار طبقوں میں اسلاف کی کثرت رہی اس وجہ سے ان کو خیر و بھلائی کی صدیوں کا نام ملا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ ﴾ (التوبہ : ۱۰۰)
’’اور مہاجرین اور انصار کے وہ لوگ جو پہلے سبقت لے جانے والے تھے اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے ۔‘‘
اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں جسے آپ سے ابوسعید خدری ، عبداللہ بن مسعود ، ابوہریرہ ، ام المومنین عائشہ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے اور جو صحیح بخاری حدیث نمبر ۲۸۹۷، ۲۶۵۲، ۲۶۵۱، ۳۴۲۸،