کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 536
بدلہ مل کر رہے گا ۔‘‘ اللہ کے ناموں میں کجروی اور الحاد یہ ہے کہ : ۱۔ اس کو ایسا نام دیا جائے جس سے اس نے اپنے آپ کو موسوم نہیں کیا ہے جب کہ فلاسفہ نے اس کا نام ’’علت فاعلہ ‘‘ رکھا ہے ۔ ۲۔ یہ بھی اس کے ناموں میں الحاد ہے کہ اس کے ناموں میں سے کسی نام کا انکار کیا جائے جیسا کہ جہم بن صفوان کے پیروؤں کا مسلک اور عقیدہ ہے۔ ۳۔ الحاد یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام جن صفات پر دلالت کرتے ہیں ان کا یا ان میں سے کسی کا انکار کر دیا جائے ۔ معلوم ہوا کہ متکلمین ، چاہے وہ اشاعرہ ہوں یا ما تریدی وہ ملحدین میں شا مل ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کو تو مانتے ہیں مگر ان صفات کو نہیں مانتے جن پر وہ دلالت کرتے ہیں ، دوسرے لفظوں میں وہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کو بے معنی مانتے ہیں یعنی اس کا ایک نام حکیم تو ہے ، لیکن یہ اس مفہوم پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ صفت حکمت یا حکم سے موصوف ہے اور جس نام مبارک کا اس نے اپنی کتاب میں ۸۱ بار ذکر کیا ہے وہ بیکار اور بے معنی ہے ، اللہ کے حق میں اس سے بڑی کجی اور گمراہی اور کیا ہوگی؟ یاد رہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا اسم مبار ک ’’حکیم ‘‘ بیشتر مقامات پر اس کے صفاتی نام ’’عزیز ‘‘ کے ساتھ آیا ہے اور متعدد مقامات پر ’’علیم ‘‘ کے ساتھ ، عزیز عزت سے بنا ہے اور عزت کے معنی قدرت و غلبہ کے ہیں اور علیم کے معنی ہیں جو ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔ حکیم مبالغہ یا صفت مشبہ کا صیغہ ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل کبھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا حکمت کسی چیز کو اس کے شایان شان اور مناسب مقام پر رکھنے کو کہتے ہیں ، یہ اللہ کی تقدیر میں بھی جاری و ساری ہے اور اس کی شریعت میں بھی ، حکمت اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں بھی ہو سکتی ہے جس کے ادراک سے عقل عاجز اور ماندہ ہے اور اس تقدیر کی غایت اور مقصود میں بھی ، اللہ تعالیٰ کے احکام چاہے وہ کونی ہوں یا شرعی وہ حد درجہ محمود اور قابل تعریف غایات اور مقاصد کے لیے ہیں ۔ احکام کونی سے ہم ناواقف ہیں اور احکام شرعی معلوم و معروف ہیں ۔ حکیم کے ایک اور معنی صاحب حکم و اقتدار کے بھی ہیں اور اس کے ساتھ عزیز یا علیم کا اضافہ اس میں مزید تاکید پیدا کر دیتا ہے ، ایسی صورت میں اس اسم صفت کا انکار اپنی شناعت اور سنگینی میں دو چند ہو جاتا ہے اور ایسا کرنے والے فضل الٰہی کے ناقدرے اور ناشکرے قرار پاتے ہیں اور ان کا شمار ’’اولیا ء الشیطان ‘‘ میں ہونے لگتا ہے ۔ مشہور مفسر قرآن قرطبی بھی اشعری متکلم تھے ، لیکن انہوں نے سورۃ ذاریات کی مذکورہ آیت میں لیعبدون کے لام کو لام تعلیل ہی مانا ہے یعنی تعلیل حقیقی ، وہ ڈاکٹر بوطی سے زیادہ عربی دان تھے ، مگر ان کو من گھڑت ’’علت جعلیہ ‘‘ نہیں