کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 535
’’اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے یہ دنیا پیدا کی ہے اور ایجاد کی ہے ، لیکن کسی ایسے مقصد کے لیے نہیں جس پر اس ایجاد کا مدار ہو ، اور ایسی کسی حکمت کے لیے بھی نہیں جس پر اس کی تخلیق موقوف ہو ۔[1] اہل حق سے آمدی نے اہل کلام کو مراد لیا ہے ، ان کی عبارت اگرچہ بوطی کی عبارت سے زیادہ واضح ہے ، لیکن دونوں میں جو چیز قدر مشترک ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق بلا کسی مقصد اور حکمت کے فرمائی ہے ؟ اللہ علیم و حکیم کے حق میں یہ باطل عقیدہ رکھنے والوں کو ’’اہل حق ‘‘ کہنا کس قدر حق سے دوری ہے ، لیکن اگر کسی کے ذہن و عقل پر پردہ پڑ جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فعل میں مقصد اور حکمت کو اس کے حق میں نقص اور عیب سمجھنے لگے تو کیا کیا جا سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ’’حکیم ‘‘ قرآن پاک میں ۸۱ بار آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام نام عمدہ تر ہیں ، ارشاد ربانی ہے : ﴿وَلِلّٰہِ الْاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا﴾ (الاعراف: ۱۸۰) ’’اور اللہ ہی کے لیے ہیں سب اچھے نام، سو اسے انہی کے ساتھ پکارو۔‘‘ اللہ عزوجل کے تمام نام سب ناموں سے اچھے اور عمدہ اس لیے ہیں کہ ان میں سے ہر نام اس کی صفت کمال پر دلالت کرتا ہے ، اگر یہ نام ان صفات پر دلالت نہ کرتے جن سے وہ بنے ہیں اور مشتق ہیں اور محض نام اور علم ہوتے جس طرح انسانوں کے نام ہوتے ہیں تو ان کی صفت ’’حسنی ‘‘ نہ ہوتی ، لیکن معتزلہ اور متکلمین کی مت ماری گئی ہے کہ معتزلہ تو تمام صفات کے منکر ہیں ، مگر اس کے ناموں کو مانتے ہیں لیکن اس طرح کہ وہ کسی صفت پر دلالت نہیں کرتے ، رہے اشاعرہ تو وہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کو تو مانتے ہیں ، لیکن صفات میں صرف ۷ علم ، قدرت ، حیات ، سمع ، بصر ،کلام ، ارادہ کے قائل ہیں اور ما تریدیوں نے ان صفات میں ایک آٹھویں صفت : تکوین کا اضافہ کیا ہے ۔ اس وضاحت کی روشنی میں اشاعرہ اللہ تعالیٰ کے نام ’’حکیم‘‘ کے تو معترف ہیں ، لیکن جس صفت سے یہ بنا ہے اور مشتق ہے ، یعنی ’’حکمت ‘‘ یا ’’حکم ‘‘ اس کے قائل نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام ’’حکیم ‘‘ محض نام ہے اور وہ کسی معنی یا صفت پردلالت نہیں کرتا، اس طرح اشاعرہ اور ما تریدی ان لوگوں میں شامل ہو گئے جو اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کجروی کی روش پر عمل پیرا ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو یہ حکم دیاہے کہ وہ ایسے لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں ، ان کو چھوڑ دیں اور ان کی روش نہ اختیار کریں ۔ ارشاد الٰہی ہے : ﴿وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الاعراف:۱۸۰) ’’اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں سیدھی راہ سے انحراف کرتے ہیں یقینا ان کو ان کے عمل کا
[1] غایۃ المرام ص ۲۰۳