کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 534
کی روش پر چلتے ہوئے وہ قرآن پاک کی اس تصریح کے منکر ہیں کہ انسانوں اور جنوں کی تخلیق اللہ کی عبادت کے لیے ہوئی ہے ، ان کا دعوی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ ﴾ (الذاریات: ۵۶) اپنے ظاہری مفہوم میں نہیں ہے ، یعنی ’’لیعبدون‘‘ میں لام حقیقی علت اور سبب بیان کرنے کے لیے نہیں ہے ، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ لازم آتا کہ اللہ جل جلالہ اپنی الوہیت کی تکمیل کے لیے لوگوں کی عبادت کا محتاج ہے اسی لیے اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ۔ اس طرح کی آیتوں میں ’’لام ‘‘ علت جعلیہ تخلیقی علت کی تعبیر کے لیے آیا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ انسان کو وجود میں لانے اور اس کو اپنی عبادت کے مقتضیات کا پابند بنانے سے متعلق ہے ، یعنی اس نے محض اپنی مشیت اور قدرت سے انسانوں اور جنوں کو وجود بخشا ہے ۔ [1] بوطی نے غایت تخلیق انسانی کو اللہ تعالیٰ کے حق میں نقص اور عیب تصور کرکے جس اشکال سے بھاگنا چاہا وہی ان کے گلے پڑگیا ، واضح رہے کہ اس زیر بحث موضوع کے سیاق و سباق میں ’’جعل ‘‘ ’’خلق‘‘ کے معنی میں ہے ، اس طرح ’’علت جعلیہ ‘‘ علت خلقیہ ہی ہوئی جس کے بموجب آیت کا مفہوم یہ ہوا: (وما خلقت الجن والانس الا لعلۃ خلقیۃ ) یعنی میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر تخلیقی علت کے لیے ؟ یہ کیا بات ہوئی ؟ پھر ’’لیعبدون ‘‘ کا کیا بنے گا۔ پھر لام کو لام تعلیل حقیقی نہ مان کر ’’تخلیقی علت ‘‘ کا معبر قرار دے کر جو بات فرمائی ہے اس سے وہی مفہوم نکلتا ہے جو مفہوم اس کو لام تعلیل مان کر نکلتا ہے چنانچہ عربی میں ان کی عبارت ہے : (تعلقت ارادۃ اللّٰہ بایجاد الانسان وبتکلیفہ بمستلزمات العبودیۃ لہ …برابط من محض مشیئتہ وقدرتہ) ’’انسان کو وجود بخشنے اور اس کو اپنی عبودیت کے مقتضیات اور لوازم کا پابند بنانے کا ارادۂ الٰہی اس کی مشیت اور قدرت کے رشتہ سے جڑا ہوا ہے ۔‘‘ یہ عبارت اگرچہ حد درجہ پر تکلف ہے ، مگر اس سے بھی یہی مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی مشیت اور قدرت سے انسان کو وجود بخشا اور اس کو اپنی عبودیت کے مقتضیات کا پابند بنایا‘‘ اگروہ سیدھے سے لام کو لام تعلیل مان لیتے تو پھر ان کو اس تکلف کی ضرورت نہ پڑتی ، لیکن برا ہو ذہینت کے فتور کا جس میں مبتلا ہو کر متکلمین کہیں کے نہیں رہے ۔ بوطی نے جو کچھ کہنا چاہا ہے وہ دراصل اہل کلام کے اس دعوے کی صدائے بازگشت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا کسی مقصد اور حکمت کے لیے نہیں بنائی ہے ۔ آمدی فرماتے ہیں :
[1] کبری الیقینیات ص ۱۴۵، ۱۴۶