کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 533
شرک نہیں سمجھتے تھے ، بلکہ انہوں نے ستاروں کی عبادت کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کانام ہے : ’’السر المکتوم فی مخاطبۃ النجوم ‘‘ اس کتاب میں جادو کی بھی صریح دعوت ہے ۔[1]
یہ صحیح ہے کہ رازی آخری عمر میں اپنے تمام افکا ر سے تائب ہو گئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی بلندی اور فوقیت پر دلیل ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ (طہ :۵) اور ﴿الیہ یصعد الکلم الطیب ﴾ (الشوری: ۱۱) کو حقیقی معنی میں لینا تسلیم کر لیا تھا ، اسی طرح نفی صفات پر اہل سنت و جماعت کی طرح اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿ولا یحیطون بہ علما ﴾ (طہ :۱۱) اور ﴿لیس کمثلہ شیء ﴾ (الشوری :۱۱) سے استدلال کرنے لگے تھے جس کے معنی ہیں کہ وہ مثبت صفات کے قائل ہو چکے تھے ۔[2]
لیکن انہوں نے اپنے پیچھے جو کتابیں چھوڑی ہیں وہ تو اپنا کام کر رہی ہیں میں اوپر یہ بتا چکا ہوں کہ متکلمین کی اکثریت صوفی تھی یا صوفیہ کی اکثریت کا اشاعرہ اور ماتریدیوں سے تعلق تھا وہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی متکلمین کی طرح تاویلیں کرتے تھے اور ان کو حقیقی معنوں میں لینے کوکفر و شرک سے تعبیر کرتے تھے ،دوسری طرف انہوں نے اپنے مرشدین اور مشائخ کو ان تمام صفات سے موصوف کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ، قشیری نے اپنے شیخ ابوعلی دقاق کے حوالہ سے اپنی کتاب ’’الرسالۃ ‘‘ میں اکابر صوفیا کے جو احوال اور مناقب بیان کیے ہیں ان میں ان کو غیب داں ، فریاد رس ، پناہ دہندہ وغیرہ دکھایا ہے ۔ رہے ابوحامد غزالی جن کی کتاب ’’احیاء العلوم ‘‘ کو غیر معمولی شہرت حاصل ہے ، انہوں نے اس کو جھوٹی اور موضوع روایتوں سے بھر دیا ہے ، غزالی فلسفی اور متکلم تھے اور اشاعرہ کے مسلک کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات میں تاویل و تحریف کے قائل تھے ان کا دعویٰ ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان کو حدیث کی روشنی میں حقیقی معنوں میں لینے والے کے قدم میں کوئی ٹھہراؤ نہیں ہو سکتا اور نہ اس کا رویہ ہی واضح اور متعین ہو سکتا ہے۔ [3]
دوسری طرف انہوں نے اس کتاب میں جہاں توحید کے مسئلہ میں کوئی واضح اور دوٹوک بات نہیں فرمائی ہے وہیں اکابر صوفیا کے مناقب کے ضمن میں جھوٹی روایات اور من گھڑت واقعات کی صورت میں جو باتیں نقل کی ہیں ان سے ’’شرک جلی ‘‘ کی بو آتی ہے ۔
دور جدید میں جو صوفی متکلم یا متکلم صوفی پیدا ہوئے ان میں امداد اللہ مہاجر مکی ، زاہد کوثری ، محمد علی صابونی ، علی جمعہ اور رمضان بوطی اہل سنت و جماعت اور ان کے عقائد پر تنقید کرنے اور ان پر سب و شتم کی بارش کرنے میں پیش پیش تھے اور ہیں ان میں کچھ تو وفات پا گئے اور کچھ زندہ ہیں زندوں میں بوطی قدیم اور جدید دونوں فریقوں کے فرائض ادا کر رہے ہیں ، بوطی کو مغالطہ دینے اور کتاب و سنت کی نصوص میں تحریف کرنے میں ید طولی حاصل ہے ، ایک طرف تو قدیم متکلمین
[1] میزان الاعتدال ص: ۴۱۱ج:۵
[2] شرح العقیدہ الواسطیہ ص ۷۶
[3] ص: ۱۸۰ ج:۱