کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 532
قرآن اور حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ’’منفی‘‘ صفات اجمالا بیان ہوئی ہیں اور ’’مثبت ‘‘ صفات تفصیلا ، فلاسفہ اور متکلمین نے اس کو الٹ دیا اور اس کی منفی صفات اتنی تفصیل سے بیان کیں کہ اس طرح ان کا خدا ’’عدم ‘‘ میں تبدیل ہو گیا ، رہیں اللہ تعالیٰ کی مثبت صفات تو انہوں نے چند صفات کو چھوڑ کر بقیہ تمام کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اس سے اس کے اور مخلوق کے درمیان مشابہت اور مماثلت لازم آتی ہے ۔ متکلمین کی اس توحید سے نہ اس کے ایسا رب ہونے کا تصور ملتا ہے کہ تنہا وہی اس کائنات کا خالق ، مالک ، رازق، مدبر، نگہبان اور کارساز ہے اور نہ اس سے یہی تصور ملتاہے کہ تنہا وہی مستحق عبادت ہے اور عبادت کی کسی قسم میں بھی غیر اللہ کو شریک بنانا شرک اعظم ہے، دوسرے لفظوں میں ان کی توحید نہ توحید ربوبیت ہے اور نہ توحید الوہیت و عبادت۔ پھر متکلمین کی یہ توحید سراسر عقلی ہے جس کو قرآن و حدیث کی ادنیٰ تائید بھی حاصل نہیں اور عقل کے بارے میں یہ بات مسلم اور قطعی ہے کہ غیبیات کے ادراک سے وہ درماندہ ہے وہ تو روح کے بارے میں بھی معمولی سا علم نہیں رکھتی جس کے ذریعہ انسان اور دوسرے جاندار زندہ رہتے ہیں اور جسموں سے جس کے نکل جانے سے وہ مرجاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی توحید یا وحدانیت کی یہ تعریف کسی ایسے انسان نے کی ہوتی جس کو کتاب و سنت کا غیر معمولی علم ہوتا تو اس وقت بھی وہ مردود ہوتی، کیونکہ عقیدہ و احکام سے متعلق دلیل کے بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے امام یا عالم کی ہر بات ناقابل التفات ہے ، چہ جائیکہ توحید کی یہ تعریف ایک ایسے شخص کی اٹکل پچو پر مبنی ہو جو مسلمان بھی نہیں تھا۔ اگر اس توحید سے تنہا اللہ تعالیٰ کے رب ہونے یا تنہا اس کے مستحق عبادت ہونے کا اشارہ بھی ملتا تو ہم کہتے کہ چلو کسی بھی درجے میں اس سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا تصور تو ملتا ہے اس لیے اس کو موضوع بحث بنانے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس توحید سے اس توحید ربوبیت کا بھی کوئی تصور نہیں ملتا جس کے قائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مشرکین اور دنیا کے تمام مشرکین تھے اور ہیں رہی اللہ تعالیٰ کی توحید الوہیت ، یعنی صرف اللہ تعالیٰ معبود برحق ہے اور عبادت کی ہر قسم صرف اس کے لیے کرنی جائز ہے تو اس توحید سے متکلمین کی توحید کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے اسی وجہ سے متکلمین اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے صوفیا مشرکانہ اعمال میں سر سے پاؤں تک غرق ہیں ، بلکہ یہ صوفیا اپنے عقائد اہل کلام سے لینے کی وجہ سے توحید و شرک کے مفہوم تک سے ناواقف ہیں اگرچہ وہ ذخیرہ آخرت بنانے کے لیے لا شعوری طورپر لاالہ الا اللہ کا دن و رات ورد کرتے رہتے ہیں ۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے وہ نہ تو مبالغہ آرائی ہے اور نہ تصوف دشمنی ، مثال کے طور پر فخر الدین رازی کو لے لیجئے جن کو برصغیر کے علماء امام رازی کہتے ہیں انہوں نے اپنی تفسیر اور دوسری کتابوں میں قرآن سے ثابت اللہ تعالیٰ کے عرش پر بلند ہونے اور رونق افروز ہونے ، موسی علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے اور اللہ عزوجل کے لیے حقیقی آنکھ ، چہرہ اور ہاتھ ہونے کے قائلین کے خلاف جو طوفان بدتمیزی برپا کیا ہے اور ان کا مذاق اڑایا ہے ، یہی رازی کواکب پرستی کو