کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 518
اسی طرح اس کی کسی صفت کی نفی کرنا یا اس کا انکار کرنا بھی مردود ہے ، کیونکہ کسی چیز کے اثبات اور نفی دونوں کے لیے جو علم درکار ہے اس سے اللہ کی مخلوق میں انبیاء اور رسولوں کے علاوہ کوئی بھی بہرہ ور نہیں ہے ۔اور انبیاء اوررسولوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کے منصب رسالت کے تقاضوں کے پیش نظر اس علم سے سرفراز فرمایا تھا، یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان کا ماخذ وحی الٰہی تھا ان کا عقلی اجتہاد و قیاس نہیں ۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں اپنی صفات تو نہایت تفصیل سے بیان فرمائی ہیں لیکن اپنی ذات سے کسی صفت کی نفی کے بیان میں اجمال سے کام لیا ہے ، بلکہ جو صفات اس کی باکمال اور تمام عیوب سے پاک ذات کے شایان شان نہیں ان کی فہرست بیان کرنے کی بجائے یہ فرمانے پر اکتفا کیا ہے کہ اس کے مانند کوئی نہیں ہے ، ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ ﴾ (الشوری : ۱۱) کیا تم اس کا کوئی ہم رتبہ جانتے ہو ، ﴿ہَلْ تَعْلَمُ لَہُ سَمِیًّا ﴾ (مریم: ۶۵) ’’اور نہیں ہے کوئی اس کے برابر۔‘‘ ﴿وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًا اَحَدٌ ﴾ (الاخلاص : ۴) لیکن معتزلہ اور متکلمین اوران کے ہم نوا دوسرے عقل پرستوں نے اولا تو یہ کیا ہے کہ اپنے آقا، فلاسفہ یونان کے عقلی دلائل کی پیروی کرتے ہوئے خود اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرنی شروع کر دیں ، جبکہ یہ بات معلوم و مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سراسر غیب ہیں اور غیب تک عقل کی رسائی نہیں ہے ۔ثانیا انہوں نے کتاب و سنت سے ثابت صفات الٰہی میں سے معدودے چند کو چھوڑکربقیہ تمام کا انکار کردیا اورجن کومانابھی ان کوتاویل کے خراد پرچڑھا کربدل ڈالا ۔ ثالثا: انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کی ایسی طویل فہرست پیش کردی جن سے ان کی نظر میں اللہ تعالیٰ کو موصوف کرنا جائز نہیں ہے، جبکہ ان خود ساختہ اور من گھڑت صفات کا قرآن وحدیث میں اثباتا یا نفیا کوئی ذکر نہیں آیا ہے ۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کے لیے سمت اورحدود کی نفی کرتے ہوئے انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ نہ تودنیا کے اوپرہے اورنہ اس کے نیچے ، نہ اس کے اندر ہے اور نہ باہر ، نہ اس سے متصل ہے اورنہ علیحدہ ، نہ اس کے دائیں ہے اور نہ بائیں ، نہ آسمان کے اندرہے اور نہ زمین کے اندر، نہ جسم ہے اور نہ خیال،نہ جوہرہے اور نہ عرض اور نہ اس کی طرف حسی اشارہ ہی کیا جا سکتا ہے وغیرہ۔ اس طرح ان عقل پر ستوں نے اللہ تعالیٰ کے وجود کو عدم میں بدل دیا ، لیکن چونکہ قرآن وحدیث میں ایسے کسی الٰہ اور معبود کا ذکر نہیں آیا ہے ،ا س لیے یہ معتزلہ اور متکلمین کا خدا تو ہو سکتا ہے ، لیکن وہ معبود حقیقی نہیں ہو سکتا جو تنہا مستحق عبادت ہے ۔ ﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْر﴾ (لقمان:۳۰) ’’ایسا اس لیے ہے کہ درحقیقت اللہ ہی حق ہے اور اس کوچھوڑ کر لوگ جس کو پکارتے ہیں یقینا وہ باطل ہے