کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 516
’’وہ اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے ۔‘‘ اس آیت سے متعلق ایک نہایت اہم نکتہ کی طرف اشارہ کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اس آیت کا پہلا فقرہ ’’یخافون ربھم ‘‘ اپنے مدعا میں بالکل واضح تھا اور اللہ تعالیٰ سے فرشتوں کے ڈرنے اور خوف زدہ رہنے کے مسئلہ کے بیان میں کسی اضافی تاکید کا محتاج نہیں تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ کی فوقیت اور علو کو بیان کرنے کے لیے ’’من فوقھم‘‘ کا فقرہ شامل کیا گیا تاکہ انسانوں اور جنوں سے اوپر پائی جانے والی مخلوق فرشتوں کے بارے میں بھی یہ شرح صدر رہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بھی اوپر ہے ۔ یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ اللہ تعالیٰ کاساری مخلوقات کے اوپر ہونا، بلکہ پوری کائنات کے اوپر ہونا عقل کا بھی تقاضا ہے ، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ سب کے اوپر نہیں ہے توپھر سب کے نیچے ہو گا یا کچھ کے نیچے ، اور یہ ایک ایسا عیب ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ۔ رہے متکلمین اوردوسرے عقل پرستوں کے دعاوی کہ اللہ نہ آسمان میں ہے ،نہ زمین میں ، نہ عالم کے اندر، نہ باہر، نہ عالم سے متصل ہے اور نہ علیحدہ اور نہ اس کی طرف حسی اشارہ ہی کیا جا سکتا ہے ،تو یہ تمام دعاوی باطل ہیں اوراپنے پیچھے کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں رکھتے ، اوپر یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سراسر غیب ہیں اور عقل غیبیات کے ادراک سے عاجز ہے وہ تو روح کے بارے میں کوئی ادنی سی معلومات نہیں رکھتی جو ہر زندہ انسانوں ، جنوں اور جانوروں کے اندر موجود ہے اور ہم سب کے بیحد قریب ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی فوقیت اورعلو فطرت کی بھی آواز ہے ، اوردنیا کا ہر انسان قطع نظر اس کے کہ وہ مومن ہے یا کافر، عالم ہے یا جاہل ، بچہ ہے یا بوڑھا یا جوان ، غیر معمولی حالات سے دوچار ہوتے وقت آسمان کی طرف نگاہیں بلند کر دیتا ہے ایسا وہ فطرت کے تقاضے سے کرتاہے اور فطرت مسلمان ہے ۔ ان طویل وضاحتوں کے بعد آیئے اس تاویل سے لطف اندوز ہوں جوجوینی نے جن کا لقب ’’امام الحرمین ‘‘ تھا ، مذکورہ حدیث کی کی ہے ، فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے سوال اس وجہ سے کیا تھا کہ وہ ان بت پرستوں سے تعلق رکھتی تھی جو اللہ تعالیٰ کے لیے جہت اورحدود کے قائل تھے اور اس سے بیان لیا تاکہ وہ اپنے شرک کا اعتراف کر لے ،جیسے کہ اللہ تعالیٰ سوال کرے گا : این شرکائی؟ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال پرلونڈی کا یہ کہنا : ’’آسمان میں ‘‘ شرک کا اعتراف تھا، تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کوکیا معنی دیں گے : ((اعتقھا ، فانھا مومنۃ )) اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کے حق میں لونڈی کا یہ کہنا کہ ’’وہ آسمان میں ہے‘‘ ، اعتراف شرک تھا ، تو اس کا یہ کہنا کہ