کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 495
عذاب قبر اور شفاعت وغیرہ کی معرفت تک نہیں ہے ۔ وہ صرف محسوسات اور مشاہدات کے ادراک کی قدرت رکھتی ہے رہے غیبی امور تو وہ ان کی معرفت کے لیے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی نصوص کی محتاج ہے ، لیکن متکلمین نے فلاسفہ یونان اور معتزلہ کی اندھی تقلید کرتے ہوئے غیبی امور اور اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے مسئلہ میں بھی عقل کو حاکم اور فیصلہ کن بنا لیا ، اور انہوں نے عقل کا درجہ اتنا بلند کر دیا کہ اگر قرآنی آیات اور احادیث متواتر کسی مسئلہ میں عقل سے متصادم ہوئیں تو ان کی تاویل و تحریف کر ڈالی اور اگر احادیث آحاد ان کے فاسد افکار کی راہ میں حائل ہوئیں تو عقل کو دلیل قطعی اور حدیث واحد کو دلیل ظنی کہہ کر رد کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے اثبات میں متکلمین کا مسلک: متکلمین ، اشاعرہ اور ماتریدیہ ، اور معتزلہ اور جہمیہ ۔ جہم بن صفوان کے پیرو اللہ تعالیٰ کی صفات اور اسمائے صفات کے اثبات اور نفی کے مسئلہ میں عقل پر کلی اعتماد کرتے ہیں ، اہل عقول کے طرز پر ان کے درمیان اس مسئلہ میں جزئی اختلافات تو ضرور ہیں لیکن بنیادی طور پر ان کا سارا مدار عقل پر ہے بایں معنی کہ عقل نے اللہ تعالیٰ کی جن صفات کا اثبات کیا ہے ان کو ثابت مانتے ہیں اور جن کی نفی کی ہے ان کی نفی کرتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ ’’عقل نے اللہ تعالیٰ کی جو صفت مانی ہے ہم بھی اس کو ثابت مانتے ہیں چاہے اللہ نے اپنی ذا ت کے لیے اس کو ثابت قرار دیا ہے یا نہیں اور اگر عقل نے اللہ کی کسی صفت کا انکار کیا ہے تو ہم بھی اسے نہیں مانتے ، اگرچہ اللہ نے اس سے اپنے آپ کو موصوف کیا ہو ، رہی ایسی صفت جس سے اللہ کے موصوف ہونے یا نہ ہونے کا تقاضا عقل نہ کرتی ہو ، تو متکلمین اور معتزلہ کی اکثریت نے اس کی نفی کی ہے ان کا دعوی ہے کہ : عقل کی دلالت مثبت ہے ، لہٰذا عقل نے اللہ کے لیے جس صفت کو ضروری قراردیا ہے ہم اس کو ثابت مانتے ہیں اور جس کو ضروری نہیں قرار دیا ہے ہم اس کی نفی کرتے ہیں ، ان میں سے بعض فرقے اس آخری مسئلہ میں توقف سے کام لینے کے قائل ہیں ‘‘[1] اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے مسئلہ میں متکلمین اور معتزلہ کے مذکورہ بالامسلک سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں کیا چیز واجب ہے اور کیا ناممکن متکلمین کے نزدیک اس کا فیصلہ صرف عقل کرتی ہے ۔ شیخ ابومرہ لعنۃ اللہ علیہ اور عقل: حکم الٰہی کے قبول و رد کے مسئلہ میں سب سے پہلے شیخ ابومرہ ابلیس لعین نے عقل کا سہارا لیا تھا ، متکلمین ، معتزلہ ، جہمیہ اور دوسرے عقل پرستوں کا امام یہی ابلیس ہے اور یہ سب اسی کے طریقہ پر عمل پیرا ہیں اور ان کے دلائل بھی اسی کی دلیل کے مانند ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی تخلیق مکمل فرمانے کے بعد فرشتوں اور ابلیس کو ان کا سجدہ کرنے کا جو حکم دیا تھا وہ قرآن
[1] شرح العقیدہ الواسطیہ ص ۶۲،۶۳۔