کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 463
حدیث اور سنت میں آسمان و زمین کا فرق ہے دین میں دونوں کا مرتبہ اور مقام الگ الگ ہے ان کو ہم معنی سمجھنے سے بڑی پچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ دونوں نے اتنے بڑے دعوے تو کر ڈالے ، مگر پہلے نے یہ نہیں بتایا کہ دونوں کو ایک کرنا مغالطہ کیوں ہے اور کیسے ہے اور دوسرے نے دونوں کو ایک قرار دینے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں میں سے کسی ایک بھی پیچیدگی کی نشاندہی نہیں کی۔ دراصل ان دونوں تجدد پسند محققین نے سنت کو حدیث سے مختلف ہونے کا جو دعویٰ کیا ہے اس کی ان کے پاس قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ ان کے ایسا دعوی کرنے کے پیچھے یہ محرک کار فرما رہا ہے کہ اس طرح وہ اپنے زعم باطل میں سنت کو متواتر ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور حدیث سے جو خبرواحد اور ظنی ہے چھٹکارا پا جائیں گے ۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کی دلیل ان دونوں بزرگوں کے وہ بلند بانگ دعوے ہیں جو وہ حدیث واحد کے شرعی حجت ہونے کے خلاف مختلف انداز سے کرتے رہے ہیں ۔ میں ان کے اور دوسرے منکرین حدیث کے دعوؤں کا جواب تو ’’حدیث واحد اور حدیث متواتر‘‘ کی فصل کے تحت دوں گا یہاں میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حدیث اور سنت میں فرق کا نعرہ لگا کر ان لوگوں نے حدیث کی اس قسم کو دریا برد کرنا چاہا ہے جو ’’حدیث واحد‘‘ کہلاتی ہے اور حدیث متواتر کے عملا وجود نہ رکھنے کی وجہ سے تنہا جو قرآن کے ساتھ دوسرا شرعی ماخذ ہے۔ سنت میں اختلاف کیوں ؟ اگر سنت لفظی روایت کے بجائے ’’عملی تواتر‘‘ سے عبارت ہے تو پھر اس میں اس قدر اختلاف کیوں ؟ مولانا ندوی نے اس اختلاف کی جو توجیہہ کی ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے : میرا جواب یہ ہے کہ اس مشکل کے حل کی بھی وہی تدبیر ہے جو دنیا کے دوسرے روایتی واقعات کے حل میں اختیار کرتے ہیں ، اگر آپ کے سامنے کسی نادیدہ واقعہ کے متعلق دو قسم کی مختلف روایتیں آتی ہیں تو آپ کیوں کر فیصلہ کرتے ہیں ؟ یہی کرتے ہیں کہ دیکھتے ہیں کہ ان دونوں بیان کرنے والوں میں سے کون زیادہ معتبر اور ثقہ ہے؟ یا کس کا بیان دوسرے یقینی حالات و واقعات سے زیادہ قرین قیاس ہے یہی صورت ان احادیث میں بھی ہے جتنا حصہ ان عملی روایات کا ایسا ہے جو بلا ادنیٰ اختلاف ثابت ہے وہ یقینی اور ناقابل رد ہے اور جتنا حصہ مختلف فیہ ہے اگر ان مختلف پہلوؤں میں کوئی پہلو اصولاً اور قیاساً زیادہ معتبر ہے اس کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر سب پہلو برابر ہیں تو یہ مان لینا چاہیے کہ ان مختلف طریقوں میں جس طرح بھی کیا جاتا ہے وہ صحیح ہے۔[1]
[1] ص ۱۴۳، ۱۴۴