کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 452
لوگوں پر یہ لازم کر دیا ہے کہ وہ آپ کے احکام کی پیروی کریں ، لہٰذا اس کے سوا کچھ اور کہنا جائز نہیں کہ ’’فرض صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا ہے ۔‘‘ ’’اللہ نے اپنے رسول پر ایمان کو اپنے اوپر ایمان کے ساتھ ساتھ بیان کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کتاب اللہ میں اللہ کی مراد کا بیان اور کتاب کے خاص و عام کی دلیل ہے ، پھر اس نے اپنی کتاب کے ساتھ حکمت کو ملا کر اس کے بعد اس کا ذکر کیا ہے اور ایسا اس نے اپنی مخلوق میں اپنے رسول کے سوا کسی اور کے لیے نہیں کیا ۔‘‘[1] معلوم ہوا کہ مذکورہ بالاارشادات میں ’’حکمت‘‘ سے مراد حدیث کے سوا کچھ اور نہیں ہے جس کی مزید تائید ان آیات قرآنی سے ہوتی ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے کتاب کے ساتھ حکمت کو بھی نازل کرنے کی تعبیر اختیار فرمائی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : ﴿ وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَ الْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ ﴾ (البقرۃ:۲۳۱) ’’اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو اور اس کو جو اس نے کتاب و حکمت کی شکل میں تم پر نازل کیا ہے وہ تمہیں اس کے ذریعے نصیحت کرتا ہے۔‘‘ یہ جس آیت کا فقرہ ہے اس میں طلاق کے احکام بیان ہوئے ہیں اس تناظر میں کتاب کے ساتھ ’’حکمت‘‘ بمعنی حدیث و سنت کا ذکر کس قدر برمحل ہے اسی وجہ سے امام قرطبی کی یہ تفسیر کتنی مبنی برحقیقت ہے کہ ’’اللہ نے اسلام اور احکام بیان کرکے تم پر فضل کیا ہے اس کو یاد کرو اور کتاب پر حکمت کا عطف اس وجہ سے ہے کہ اس سے مراد سنت ہے جو ان مسائل اور امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ تعالیٰ کی مراد کو بیان کرتی ہے جو کتاب اللہ میں مذکور نہیں ہیں ۔‘‘[2] دوسری آیت جس میں اللہ تعالیٰ نے کتا ب کے ساتھ حکمت نازل کرنے کی خبر دی سورۃ نساء میں آئی ہے ارشاد ربانی ہے : ﴿ وَ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَ کَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا﴾ (النساء:۱۱۳) ’’اور اللہ نے تیرے اوپر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تجھے ان باتوں کا علم دیا جو تو نہیں جانتا تھا اور تیرے اوپر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے ۔‘‘ تعلیم کتاب و حکمت میں خود قرآن پاک اور بعض علمائے اسلام کے اقوال کی روشنی میں حکمت کا مفہوم واضح اور متعین ہو جانے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے بھی نقل کر
[1] الرسالۃ ، ص :۸۷،۸۸ [2] الرسالۃ ص:۸۴۱ ج:۲