کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 449
باب چہارم: قرآن و حدیث کا باہمی تعلق قرآن وحدیث میں وہی تعلق ہے جوتعلق کلمہ توحید: لاالہ اللّٰہ محمدرسول اللّٰہ میں توحید و رسالت کے اقرار میں ہے جبکہ توحید اصل دین اورتمام انبیاء اوررسولوں کی دعوت اور ان کی بعثت کا مقصد رہی ہے اور عبادت جس کے لیے انسانوں اور جنوں کو وجود بخشا گیا ہے۔(سورۃ الذاریات:۵۶) اسی توحیدکامظہرہے رہا رسالت پرایمان تونہ تواس کی خاطر رسولوں کی بعثت ہوئی ہے اورنہ یہ انسانوں اورجنوں کی تخلیق کامقصدہے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پرایمان اوررسول عربی قریشی ہاشمی ،محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان دونوں اپنے حکم میں ایک درجہ رکھتے ہیں بایں معنی اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا تو اقرارکرے،مگر محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول نہ مانے تومومن نہیں ہے ۔ توحیدکے ساتھ رسالت پرایمان کے معنی یہ ہیں کہ توحید اوراس کے عملی مظہرعبادت کے متعلق صرف وہی احکام قابل عمل ، قابل اعتبار، اورعنداللہ مقبول ہیں جوہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ اورذریعہ سے ملے ہیں ،چاہے یہ قرآن کی شکل میں ہوں یاحدیث کی شکل میں اس بات کواگرہم تھوڑاساپھیلادیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’’محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کورسول ماننے کالازمی تقاضایہ ہے کہ آپنے ہمیں قرآن و حدیث کی شکل میں جو خبریں دی ہیں ہم ان کی تصدیق کریں یعنی ان کوسچ مانیں ،ہمیں جواحکام دئیے ہیں انہیں بجا لائیں جن باتوں اور کاموں سے روکا اور منع فرمایاہے ان سے باز رہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اسی طریقہ سے کریں جو قرآن و حدیث میں بیان کر دیاگیا ہے، اس مسئلہ میں نہ تو قرآن وحدیث کے درمیان کوئی تفریق کریں اور نہ ان دونوں سے باہر کی کسی چیز کو قابل عمل گردانیں ۔ کلمہ توحید میں توحید و رسالت کو ایک ساتھ جمع کر دینے کا ایک نہایت اہم اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس طرح قیامت تک کے لیے اسلام کے عقیدہ توحید کو شرک کی ہر آمیزش سے پاک کر دیا گیا ہے اور اقرار توحیدکے ساتھ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کو جوڑ کر ہمیشہ کے لیے آپ کی معبودیت، اور ربوبیت کے ہر موقع اور اندیشے کا خاتمہ کر دیا گیا دوسرے لفظوں میں ’’محمدرسول اللّٰہ ‘‘ کا اعلان و اقرار جہاں صحت ایمان کی دلیل ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تائید بھی ہے ، اور جب اشرف الخلق اور سیداولاد آدم اور افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں کوئی حصہ نہیں تھا بلکہ آپ محض اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے اور رسول تھے جن کی بے چون و چرا اطاعت فرض ہے ، پھر تو دنیا کی کوئی بھی مخلوق کسی بھی شکل او ردرجے میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت میں شریک اور ساجھے دارنہیں ہو سکتی۔