کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 426
انفرادی عمل تھا اور احتیاط مزید کے طور پر انجام دیا جاتا تھا، ثانیا تعلیم و تعلم کی غرض سے نہ تھا اس لیے کہ صحابہ کرام کے ناخواندہ ہونے کی وجہ سے معدودے چند ہی تحریری قرآن یا حدیث سے مستفید ہو سکتے تھے۔ ان وضاحتوں کی روشنی میں جب یہ واضح ہو گیا کہ قرآن و حدیث دونوں کی حفاظت اور منتقلی کا ذریعہ ایک ہی تھا یعنی زبانی روایت، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کی نسبت قطعی اور حدیث کی نسبت ظنی کس طرح ہو گئی؟، جبکہ حفاظت حدیث اور روایت حدیث کا غیر جانبدارانہ اور بے لاگ مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ حدیث کے ساتھ ہر دور میں اہتمام قرآن کے ساتھ اہتمام سے زیادہ رہا، کیونکہ حدیث کا تعلق عملی زندگی سے رہا جس کے بغیر قرآن پر عمل کرنا بھی ناممکن تھا اور عصر صحابہ میں حدیث کے حفاظ قرآن کے حفاظ سے بہت زیادہ رہے، بعد کے ادوار میں اگرچہ قرآن کے حفاظ کی تعداد بہت زیادہ رہتی تھی، پھر بھی حفاظ کی اصطلاح کے حفاظ حدیث کے لیے خاص ہونے سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ حفظ حدیث کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی۔ حدیث کی عدم قطعیت پر کشمیری نے دوسرا ’’ردہ‘‘ جو یہ چڑھایا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں چاہتے تھے کہ قرآن کے الفاظ کی طرح حدیث کے الفاظ کے ساتھ بھی اہتمام برتا جائے‘‘ تو یہ محض ان کا دعوی ہے جو ان کے نظریۂ حدیث کا ترجمان ہے امر واقعہ کا ترجمان نہیں ، بلاشبہ قرآن پاک کا حرف حرف اور لفظ لفظ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس کی صفت ہے اور اس کے کسی حرف اور لفظ میں بالقصد تبدیلی اور تصرف انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتی ہے، مگر اس سے یہ مطلب نکالنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث کے الفاظ اور تعبیرات میں تبدیلی جائز ہے درست نہیں ہے، اس لیے کہ حدیث کے بشری اور انسانی کلام ہونے کے باوجود اس کا سرچشمہ بھی وحی الٰہی ہی ہے اور کلام الٰہی کے مساوی نہ ہونے کے باوجود ناقابل تصرف و ناقابل تبدیلی ہے۔ کشمیری محدث عظیم اور اسلام کی حقانیت کی دلیل ’’جیسے مبالغہ آمیز القاب سے ملقب ہونے کے باوجود اپنے اس دعویٰ کے حق میں کوئی دلیل نہیں رکھتے تھے اور میں حدیث کا ایک ادنی خادم ہوتے ہوئے بھی قولی حدیث کے الفاظ کی حفاظت کی فرضیت کے حق میں ایک ایسی دلیل رکھتا ہوں جس کے انکار کی جرأت وہی کر سکتا ہے جس کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عظمت کا ادنی سا جذبہ بھی نہ ہو اور جو بحث و جدال کا خوگر ہو، چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سونے کے ارادے سے اپنے بستر پر جاؤ تو جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہو اسی طرح وضو کرلو، پھر داہنے پہلو پر لیٹ کر کہو: ((اللّٰہم أسلمت نفسی الیک، وفوضت أمری الیک، ووجھت وجھی الیک، والجأت ظھری الیک، رغبۃ ورھبۃ الیک، لا مَلجأ ولا مَنجا منک الا الیک، أمنت بکتابک الذی أنزلت وبنبیک الذی أرسلت))