کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 424
اس امر کو مستلزم ہرگز نہیں ہے کہ صحیح احادیث یا ان کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا ہے ، بلکہ قرآن کے محفوط ہونے پر ہمارے غیر متزلزل ایمان ہی کا ہم سے یہ تقاضا ہے کہ صحیح احادیث موجود ہیں اور موجود رہیں گی، کیونکہ یہ دین اور ماخذ دین ہیں اور کسی ایک بھی حدیث کا ضائع ہونا اس دین میں نقص ہے جو اس کے کمال کے اعلان الٰہی سے متعارض ہے۔ مذکورہ بالا حقیقت کے ساتھ یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تابعین کے زمانے سے آج تک کثیر تعداد میں ایسے محدثین کا وجود تسلسل کے ساتھ رہا ہے جو مجموعی طور پر صحیح حدیثوں سے واقف بھی رہے ہیں اور ان میں اور ساقط الاعتبار روایتوں میں تمیز کرنے کی حیرتناک صلاحیتوں سے موصوف رہے ہیں ، اور قیامت تک رہیں گے بھی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے علامہ کشمیری نے جو نتیجہ اخذ کر کے مذکورہ دعوی کیا ہے وہ اس اعتبار سے بھی غلط ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو احادیث قلم بند کرنے کی اجازت دینا، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بعض احادیث کو ضبط تحریر میں لانا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابو شاہ یمنی رضی اللہ عنہ کی درخواست پر ان کے لیے فتح مکہ کے خطبہ کو لکھنے کا حکم دینا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ابو سعید خدری کی حدیث میں کتابت حدیث کی ممانعت مطلق نہیں تھی، بلکہ یا تو قرآن کو غیر قرآن کی آمیزش سے محفوظ رکھنے سے مقید تھی یا ان حدیثوں سے منسوخ تھی جن میں احادیث لکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ پھر اگر مولانا کشمیری کے دعوی کے بموجب نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ چاہتے تھے کہ احادیث قرآن کی طرح مدون نہ کی جائیں اور نہ اس کی طرح محفوظ کی جائیں ، تو پہلی صدی ہجری اور بعد کی صدیوں میں حفاظت حدیث اور تدوین حدیث کے میدان میں محدثین کے ہمہ گیر عمل اور سعی کی کیا تاویل کی جائے گی، کیا امت کے اس مقدس اور منتخب گروہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور منشاء کی خلاف ورزی کو اپنا نصب العین بنا لیا تھا؟ اور کیا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا پہلی صدی کے اختتام سے قبل تدوین حدیث کی مہم کا آغاز حکم نبوی کی صریح خلاف ورزی نہیں قرار پائے گا، ایسی صورت میں ائمہ اسلام کی طرف سے ان کے اس عمل کی تائید و تعریف چہ معنی دارد؟ مزید یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کے مرفوع اور موقوف کے مختلف فیہ ہونے سے قطع نظر حدیث لکھنے سے منع فرمایا تھا، روایت کرنے سے نہیں ، بلکہ اس میں اپنی نسبت سے حدیث کی روایت کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ ان لوگوں کو مستحق جہنم ہونے کی وعید بھی سنائی تھی جو آپ کی نسبت سے جھوٹی حدیثیں روایت کریں [1] اور روایت حدیث ’’حفاظت حدیث‘‘ کا بنیادی ذریعہ رہی ہے، بلکہ قرآن پاک کی حفاظت کا تمام تر مدار اسی زبانی روایت اور تبلیغ پر تھا، ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن کے لکھے ہوئے متفرق صحیفوں ، مصحف صدیقی کے ایک نسخے اور مصحف عثمانی کے سات نسخوں سے جو امراء کی تحویل میں تھے کتنے لوگوں نے استفادہ کیا ہو گا اگر بالفرض یہ
[1] صحیح مسلم:۳۰۰۴