کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 420
میں اس سے قبل یہ واضح کر چکا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں قرآن پاک کا جو حصہ نازل ہوتا تھا وہ اسی نزولی شکل میں جوں کا توں قلم بند کر لیا جاتا تھا جو اگرچہ آپ کے علم میں تھا، لیکن کسی حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاتبین وحی میں سے کسی کو یہ حکم دے دیتے تھے کہ نازل ہونے والی آیتوں کو فلاں سورت کے اندر اور نازل ہونے والی سورت کو فلاں سورت سے پہلے یا فلاں سورت کے بعد لکھ لو، اور ایسا ممکن بھی نہیں تھا، کیونکہ قرآن متداول مصحف کی ترتیب سے نازل نہیں ہوتا تھا، بلکہ دعوتی تقاضوں کے مطابق اس کی آیتیں یا سورتیں نازل ہوتی تھیں ، جن حدیثوں میں یہ آیا ہے کہ جب قرآنی آیات نازل ہوتی تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاتبین وحی میں سے کسی کو یہ حکم دے دیتے تھے کہ ’’یہ آیت اس سورت میں جس میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے درج کر دو‘‘ تو یہ حدیثیں جہاں استنادی حیثیت سے صحیح نہیں ہیں وہیں ان صحیح حدیثوں سے ٹکراتی ہیں جن میں یہ صراحت ہے کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے قراء کے بکثرت شہادت پا جانے کے موقع پر جب عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ اول ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جمع قرآن کا مشورہ دیا تو انہوں نے فرمایا: ((کیف أفعل شیئاً لم یفعلہ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم )) ’’میں وہ کام کس طرح کروں جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔‘‘[1] اور جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کاتب وحی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جمع قرآن کی ذمہ داری سونپی تو انہوں نے بھی ان دونوں کو مخاطب بناتے ہوئے فرمایا: آپ دونوں وہ کام کس طرح کریں گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ البتہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں پورا قرآن پاک قلم بند کر لیا گیا تھا، لیکن کسی ایک جگہ سورتوں کی ترتیب کے بغیر، رہی متداول مصحف کی شکل میں اس کی جمع و ترتیب تو یہ کام نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا تھا اور نہ اس کا امکان تھا، اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جسے ابو داود نے اپنی کتاب ’’المصاحف‘‘ میں حسن سند سے نقل کیا ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ((أعظم الناس فی المصاحف أجراً ابو بکر، رحمۃ اللّٰہ علی أبی بکر، ھو أول من جمع کتاب اللّٰہ)) [2] ’’قرآن پاک کے مصاحف کے نقل و اشاعت کے عمل میں لوگوں میں سب سے زیادہ اجر ثواب کے مستحق ابو بکر ہیں ، ابو بکر پر اللہ کی رحمت نازل ہو وہ اللہ کی کتاب کو جمع کرنے والے پہلے شخص تھے۔‘‘ رہی قرآن پاک کی تلاوت و تبلیغ تو یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں داخل تھا جسے آپ پوری ذمہ داری سے ادا کر رہے تھے۔ میں دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کر تا آ رہا ہوں کہ قرآن پاک کی اپنی خاص زبان اور اسلوب بیان ہے۔ وہ آیتوں یا سورتوں کی شکل میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتا تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر صحابۂ کرام پھیلا
[1] بخاری:۴۶۷۹ [2] فتح الباری، ص:۲۱۹۵ج ۲