کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 391
مصنف عبد الرزاق[1] مصنف ابن ابی شیبہ[2] اور امام دارقطنی کی کتاب العلل۔[3] امام احمد نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث دو سندوں سے روایت کی ہے: ۱۔ پہلی سند: ہم سے یونس اور غیر یونس نے بیان کیا، دونوں نے کہا: ہم سے حماد… یعنی ابن زید… نے بیان کیا، کہا: ہم سے مجالد نے، عامر شعبی سے اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا… اس سند سے بیان کیے جانے والے متن میں عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ہے، البتہ حدیث کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ((لو کان موسی حیاً بین أظھر کم ما حل لہ الا أن یتبعنی )) [4] ’’اگر موسی تمہارے درمیان زندہ ہوتے تو میری پیروی کے سوا ان کے لیے کچھ اور روا نہ ہوتا۔‘‘ ہم سے شریح بن نعمان نے بیان کیا: ہم سے ھشیم نے بیان کیا، کہا: ہم کو مجالد نے، شعبی سے، اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ: ((أن عمر بن الخطاب أتی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم بکتابٍ أصابہ من بعض اھل الکتاب، فقرأہ علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ۔ قال: فغضب وقال: أمتھو کون فیھا یا ابن الخطاب؟ والذی نفسی بیدہ، لقد جئتکم بھا بیضاء نقیۃ، لا تسألوھم عن شئی، فیخبر وکم بحق فتکذبوا بہ، أو بباطل فتصدقوا بہ، والذی نفسی بیدہ، لو أن موسی کان حیاً ما وسعہ الا أن یَتَّبِعَنِی)) [5] ’’عمر بن خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایسی کتاب لیے ہوئے آئے جو اہل کتاب میں سے کسی سے ان کو مل گئی تھی اور اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ راوی کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہو گئے اور فرمایا: خطاب کے بیٹے! کیا تم لوگوں کو اسلامی شریعت میں کچھ تذبذب ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے میں تو اسے روشن اور ہر نقص سے پاک لے کر آیا ہوں ۔ تم لوگ اہل کتاب سے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال مت کرو کہ اگر وہ تمہیں صحیح خبر دیں تو تم اس کی تکذیب کے مرتکب بنو یا کسی باطل چیز کی خبر دیں جس کی تم تصدیق کر دو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسی زندہ ہوتے تو ان کو میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔‘‘ ان دونوں سندوں کے تمام راوی سوائے مجالد کے جو مجالد بن سعید ہمدانی ہے ثقہ ہیں ، لیکن مجالد ضعیف ہے، یحییٰ
[1] نمبر:۱۹۲۱۳ [2] نمبر:۱۶۴۲۱ [3] ص:۱۰۰، ۱۰۱ ج۲ [4] نمبر:۱۲۶۸۵ [5] نمبر:۱۵۲۲۳