کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 371
عبداللہ بن عمرو بن عاص، انس بن مالک، جابر بن عبد اللہ، عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے نام آتے ہیں [1] ان میں سے علی بن ابی طالب اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص کے بارے میں صحیح بخاری کے حوالہ سے یہ بات اوپر آ چکی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے بعض حدیثیں قلم بند کر رکھی تھیں ، جبکہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیثیں سنتے تھے تعداد کے تعین کے بغیر ان کو ضبط تحریر میں بھی لے آتے تھے اور انہوں نے اپنے مجموعۂ احادیث کا نام ’’الصادقہ‘‘ دے رکھا تھا جو ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد کے پاس بھی محفوظ رہا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات آ چکی ہے کہ وہ لکھنا نہیں جانتے تھے، لیکن ان کے شاگرد بشیر بن نہیک ان سے جو حدیثیں سنتے تھے ان کو قلم بند بھی کر لیا کرتے تھے۔ ابو ہریرہ کی وفات ۵۷ھ میں ہوئی ہے، لہٰذا بشیر بن نہیک نے ان سے اپنی مرویات اس سے قبل قلم بند کی ہوں گی، کیونکہ یہ ثابت ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس مجموعۂ احادیث سے واقف تھے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان صحابۂ کرام میں ہوتا ہے جو احادیث کے سب سے بڑے راوی تھے جن کو اصطلاح میں ’’مکثرین‘‘ کہا جاتا ہے۔ ائمہ حدیث نے ان کی مجموعی مرویات کی تعداد ۵۳۷۳ بتائی ہے۔ منکرین حدیث نے اس تعداد کو ’’ہوا‘‘ بنا کر پیش کیا ہے۔ حالانکہ اگر دنیا کے لاکھوں ایسے مسلمان ۶ ہزار سے زیادہ قرآنی آیات کے حافظ ہو سکتے ہیں جن کی زبان عربی نہیں ہے اور جو قرآن پاک کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتے تو پھر ایک صحابی رسول کا جو اپنی زندگی کے شب و روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزار رہا تھا اس کے لیے اتنی تعداد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو زبانی یاد رکھنے میں کیا دشواری ہو سکتی تھی، جبکہ وہ اس کی اپنی زبان میں تھے اور ایک ایسے عظیم انسان کی زبان سے نکلے تھے جو اس کو دنیا کے ہر انسان، بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کی مذکورہ تعداد امام ابن الجوزی نے ’’تلقیح فہوم الاثر‘‘ میں بیان کی ہے۔ انہوں نے امام ابو عبد الرحمن بقی بن مخلد کی مسند سے صحابۂ کرام کی مرویات کی تعداد لی ہے۔ بقی بن مخلد متوفی ۲۷۶ھ کی سند میں ۱۳۰۰ سے زیادہ صحابیوں کی روایت کردہ حدیثیں درج تھیں یعنی مسند امام احمد میں منقول حدیثوں کے راویوں سے زیادہ۔ علامہ شیخ احمد شاکر نے الباعث الحیثیت(ص:۱۷۶) میں لکھا ہے کہ اسلامی کتب خانوں میں بقی بن مخلد کی مسند کا کوئی وجود نہیں ہے۔ لیکن امام ذہبی متوفی ۷۴۷ھ نے لکھا ہے کہ اس کے دو نسخے ان کے پاس موجود ہیں ، لہٰذا اس عظیم مجموعۂ حدیث میں درج حدیثیں حدیث کے دوسرے مجموعوں میں لازماً نقل کر لی گئی ہوں گی۔ یہاں میں جملہ معترضہ کے طور پر اپنے قارئین کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ امام بقی بن مخلد رحمہ اللہ کا شمار نہایت جلیل القدر محدثین میں ہوتا ہے، ان کا مولد و مسکن اندلس تھا جس کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و توفیق اور پھر
[1] ڈاکٹر مصطفی اعظمی نے اپنی منفرد کتاب: ’’دراسات فی الحدیث النبوی‘‘ میں ایسے ۵۲ صحابیوں کی فہرست دی ہے جو نہ صرف یہ کہ کتابت حدیث کے جواز کے قائل تھے، بلکہ عملاً احادیث ضبط تحریر میں لاتے بھی تھے۔ (ص ۹۲۔ ۱۴۲، ج ۱)