کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 369
صحیفہ کے انکار اور اس کو بدعت، فتنہ اور ضلالت قرار دینے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث درج تھیں ، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں ذکر کا غیر منصوص طریقہ بیان کیا گیا ہو گا۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے وہ محض مفروضہ نہیں ہے، بلکہ اس کی تائید عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک دوسرے صحیح اثر سے ہوتی ہے جس کو امام دارمی نے ’’باب کراھیۃ اخذ الرأی‘‘ کے تحت نقل کیا ہے یہ ایک طویل اثر ہے جس کا خلاصہ ہے کہ: ’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کوفہ کی ایک مسجد میں بعض ایسے لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جو مختلف حلقوں میں ذکر کر رہے تھے، ان کے ذکر کی صورت یہ تھی کہ ہر حلقہ کے لوگ ہاتھوں میں کنکریاں لیے ہوئے تھے اور حلقہ کا ایک شخص ان سے کہہ رہا تھا کہ سو (۱۰۰) بار ’’اللّٰہ اکبر‘‘ کہو اور وہ سو (۱۰۰) بار ’’اللّٰہ اکبر‘‘ کہتے۔ پھر وہ کہتا: سو (۱۰۰) بار ’’لا الہ الا اللّٰہ‘‘ کہو اور وہ سو (۱۰۰) بار ’’لا الہ الا اللّٰہ‘‘ کہتے اور وہ کہتا: سو (۱۰۰) بار ’’سبحان اللّٰہ‘‘ کہو اور وہ سو (۱۰۰) بار ’’سبحان اللّٰہ‘‘ کہتے۔ عبد اللہ بن مسعود نے ایک حلقہ کے پاس رک کر فرمایا: یہ میں تمہیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ؟ لوگوں نے عرض کیا: اے ابو عبد الرحمٰن! یہ چند کنکریاں ہیں جن پر ہم ’’اللّٰہ اکبر، لا الہ الا اللّٰہ اور سبحان اللّٰہ شمار کر رہے ہیں ‘‘ ابن مسعود نے فرمایا: تم لوگ اپنی برائیاں شمار کرو، میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ اے امت محمد! تم پر افسوس، کتنی جلدی تمہاری ہلاکتوں نے تمہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ تمہارے نبی کے اصحاب بکثرت موجود ہیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے ہیں اور نہ آپ کے برتن ہی ٹوٹے ہیں ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کیا تم ملت محمد سے زیادہ ہدایت یافتہ ملت پر ہو؟ یا تم نے گمراہی کا دروازہ کھول رکھا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: ابو عبد الرحمن! ہم تو محض خیر کے طالب ہیں ۔‘‘ فرمایا: کتنے خیر کے خواہاں ایسے ہیں جو خیر حاصل نہیں کر پاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے فرما چکے ہیں : ایسے لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے تو ہیں ، لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا، مجھے معلوم نہیں ، شاید تمہاری اکثریت انہی میں سے ہو‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ان کے پاس سے چلے گئے۔‘‘ [1] کیا ’’اللّٰہ اکبر، لا الہ الا اللّٰہ اور سبحان اللّٰہ‘‘ اعلیٰ ترین ذکر کے کلمات نہیں ہیں اور کیا ان میں سے ہر کلمہ کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے؟ پھر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر اور مزاج شناس شریعت صحابی نے اس ذکر کی اتنی شدت سے نکیر کیوں فرمائی؟ کیا اس وجہ سے نہیں کہ یہ ذکر کرنے کے لیے اپنے ذوق و پسند سے اس کے لیے
[1] نمبر۲۱۰۔