کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 35
اپنے پیش روؤں سے حدیثیں سنیں انہیں بلا چون چرا قبول کر لیا اور ان پر عمل بھی کیا۔ فجزاہم اللّٰه خیرا الجزاء۔ اللہ نے ان کے ذریعے اسلام کو بلندی عطا کی ، اندھیرے روشنی میں تبدیل ہو گئے ، قلوب و اذہان نور ایمان سے منور ہونے لگے اسلام اور اسلامی تعلیمات روز بروز عروج کی منزلیں طے کرنے لگے۔ اس کی صداقت و حقانیت لوگوں کے ذہن و دماغ پر اثر کرنے لگیں ۔ اسلام کی یہ ترقی دشمنوں کو نہیں بھائی اور انہوں نے اپنے مکرو فریب کے ذریعے نوع بنوع انداز میں اسلام پر قدغن لگانا شروع کر دیا۔ خاص طور پر یہود و نصاریٰ جو اسلام کے ازلی دشمن ہیں انہوں نے اپنے مکر و فریب سے اسلام کے مضبوط قلعہ کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔ قرآن مجید میں تو کچھ نہ کر سکے لیکن حدیث شریف میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں وہ مکمل کامیاب ہو گئے۔ پھر بھی ان کے شکوک و شبہات نفس مطمئنہ پر کچھ بھی اثر انداز نہیں ہو سکے ، کیونکہ انہوں نے سچے دل سے رضیت باللّٰہ ربًّا و بمحمد نبیًّا و بالاسلام دینًا کا اقرار کیا تھا، لیکن نفس امارہ پر مکمل کامیاب ہو گئے۔ یہ لوگ اسلام پسندی کا نعرہ ضرور لگاتے تھے اوربسا اوقات اسلام کے خلاف مغربی افکار و نظریات کا جواب بھی دیتے تھے لیکن تھے تو وہ جدت پسند اور عقلیت پسند، وہ یہودی مکر و فریب کے دلدل میں پھنس گئے اور حدیث کے متعلق ان کے شکوک و شبہات کو بسر و چشم قبول کر لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس قسم کے لوگ حدیث کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے لگے۔ کبھی صحابہ کرام کی یادداشت پر شک کرتے ، کبھی جرح و تعدیل پر قدغن لگانے لگے اور اقوال و آراء کوصحیح نصوص پر مقدم کرنے لگے۔ اس کی حجیت کو شک کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا۔ ان کی بیمار عقلیں جن حدیثوں کو قبول نہیں کرتیں ، انہیں ردّ کر دیتے۔ اگرچہ وہ حدیثیں صحیح ہی کیوں نہ ہوں ۔ ان نظریات کے حامل عرب و عجم میں متعدد لوگ پیدا ہوئے۔ برصغیر میں ان نظریات و خیالات کے حامل ایسے ایسے افراد پیدا ہوئے جن کا اسلام کی نشرو اشاعت میں اچھا کردار رہا ہے، لیکن حدیث اور قبول حدیث کی راہ میں ان کی عقلیں بھی مریض تھیں اور یہ لوگ بھی اپنے پیش روؤں کے تشکیکی نظریات کے دلدل سے محفوظ نہ رہ سکے آخر کار اس میں پھنس گئے اور ایسے پھنسے کہ آخر تک نہ نکل سکے۔ الَّا من ہداہ اللّٰہ۔ اب حدیث شریف جو اصل اسلام ہے اس میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کر دیے، جیسے : عمر کریم پٹنوی، شبلی نعمانی ، محمد اقبال، حمید الدین فراہی، ابو الاعلیٰ مودودی، ظفر احمد تھانوی، احمد رضا بجنوری، جاوید غامدی اور امین احسن اصلاحی وغیرہ وغیرہ… لیکن اللہ رب العالمین کہ اسلام جس کا پسندیدہ دین ہے وہ ہر زمانے میں ایسے ایسے نفوس قدسیہ پیدا فرماتا رہا جو ایک طرف اسلام کی صحیح تصویر پیش کرتے تو دوسری طرف حدیث کے متعلق باطل کے شکوک و شبہات کا جواب دے کر اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے حدیث کا بھر پور دفاع کرتے رہے۔ ان مبارک شخصیتوں میں برصغیر میں مولانا محمد جونا گرھی، ابو سعید محمد حسین بٹالوی، علامہ عبدالعزیز رحیم آبادی، عبدالسلام مبارکپوری، مولانا ابو القاسم بنارسی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، علامہ محمد گوندلوی، مولانا حافظ عبدالمنان نور پوری، علامہ احسان الٰہی ظہیر، مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا رئیس الاحرار ندوی اور مولانا صلاح الدین مقبول مدنی وغیرہم ہیں ۔