کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 349
’’جب پہلے مہاجرین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے آئے تو وہ قباء کے ایک مقام عصبہ میں اترے، جو قباء کا ایک مقام ہے اس وقت نماز میں ان کی امامت ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم کرتے تھے جو ان میں قرآن کے زیادہ حافظ تھے، حالانکہ ان مہاجرین میں عمر بن خطاب اور ابو سلمہ بن عبد الاسد شامل تھے۔‘‘ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں : ((لما کانت وقعۃ الفتح بادر کل قوم باسلامھم، وبادر أبی قومی بإسلامھم، فلما قدم قال: جئتکم من عند النبی صلي اللّٰه عليه وسلم حقا، فقال: صلوا صلاۃ کذا فی حین کذا، وصلاۃ کذا فی حین کذا، فاذا حضرتِ الصلاۃ، فلیؤذن أحدکم ولیؤمکم اکثرکم قرآنا، فنظروا فلم یکن أحدٌ أکثر قرآنا منی لما کنت أتلقی من الرکبان فَقَدَّ مُونی بَیْن أیدیھم وأنا ابن ست سنین أو سَبْع سنین)) [1] ’’جب فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا تو ہر قوم ایک دوسرے سے بڑھ کر مشرف باسلام ہوئی اور میرے والد میری قوم میں سب سے پہلے اسلام لائے، اور جب واپس آئے تو کہا: میں نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آیا ہوں ، جنہوں نے فرمایا ہے: فلاں نماز اس وقت پڑھو اور فلاں نماز اس وقت پڑھو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک اذان دے اور جو تم میں قرآن کا زیادہ حافظ ہو وہ تمہاری امامت کرے، انہوں نے نظر دوڑائی تو مجھ سے زیادہ قرآن کا حافظ کوئی نہیں نکلا، کیونکہ میں مسافروں سے قرآن سیکھا کرتا تھا، لوگوں نے مجھے اپنے آگے بڑھا دیا، حالانکہ میں چھ یا سات برس کا بچہ تھا۔‘‘ ان حدیثوں میں ﴿أقرأ﴾ یا ﴿أکثر قرآنا﴾ سے پورے قرآن کا حافظ مراد نہیں ہے اور نہ ایسا شخص مراد ہے جو قرآن کا عمدہ حافظ ہو یا جو قرآن کی زیادہ تلاوت کرتا ہو، بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس کو قرآن پاک کے زیادہ اجزاء زبانی یاد ہوں ، یا جس کے سینے میں زیادہ قرآن محفوظ ہو، یاد رہے کہ قرآن کی ایک آیت بھی قرآن ہے اور پوری کتاب اللہ بھی قرآن ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل ہجرت کر کے مدینہ آنے والوں میں سے سالم رضی اللہ عنہ کو قرآن پاک کے زیادہ اجزاء یاد تھے۔ عمر جیسے جلیل القدر اور ابو سلمہ جیسے سابق الاسلام اور ذوالہجرتین رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ!! ان حدیثوں سے وہ سبب سمجھنا آسان ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ کو قراء کے بکثرت شہادت پا جا نے کے نتیجے میں قرآن پاک کے ضائع ہو جانے کا خوف لاحق ہو گیا تھا، دوسرے لفظوں میں ایسے صحابۂ کرام کی تعداد بہت
[1] بخاری:۴۳۰۲، ابو داود: ۵۸۶، نسائی: ۷۸۸