کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 343
میں پھیلتی رہی، کیونکہ دونوں کی تشریعی حیثیتوں میں سرمو بھی فرق نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا اور جو صحابہ کرام یا تابعین حدیث کے حافظ تھے ان کی تعداد قرآن کے حفاظ سے، اور جو حدیثیں قلم بند کر لیا کرتے تھے ان کی تعداد قرآن پاک کے نسخے تیار کرنے والے صحابہ اور تابعین سے زیادہ تھی، بلکہ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ’’تلاوت‘‘ سے قطع نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے پر عمل پیرا رہنے کے لیے حدیث کے ساتھ اہتمام قرآن کے ساتھ اہتمام سے بڑھا ہوا تھا، کیونکہ فہم قرآن ایسی صفت ہے جس سے موصوف صرف معدودے چند ہی تھے اور ہو سکتے تھے، جبکہ حدیث کا سمجھنا اور اس سے استفادہ کرنا اور زندگی میں اس کا برتنا سب کے لیے بے حد آسان تھا اور قرآن کے مطابق آپ کی اطاعت، اتباع اور اقتدا فرض تھی، تو مبالغہ نہ ہو گا، بلکہ حقیقت بیانی ہو گی۔ ابوریہ یہ نعرہ لگاتا ہے کہ صحابۂ کرام معصوم عن الخطاء نہیں تھے اور نہ علم و فہم میں یکساں درجات رکھتے تھے ایسی صورت میں کیا ممکن نہ تھا کہ بلا قصد و ارادہ ان سے روایت حدیث میں غلطی ہو جایا کرتی رہی ہو؟ بلاشبہ صحابہ کرام معصوم عن الخطاء نہیں تھے اور نہ فہم و علم میں مساوی درجات رکھتے تھے، مگر پہلے تو حفظ و روایت میں علم و فہم اور تفقہ ضروری نہیں ، صرف اتنا علم کافی ہے کہ جو بات راوی سنے اس کو سمجھ جائے اور یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ صحابہ کرام اہل زبان تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہی میں سے ایک تھے اور انہی کی زبان بولتے تھے، مزید یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تفہیم و تعلیم کے اسلوب میں بات کرتے تھے، فصاحت و بلاغت کی بلند چوٹی پر فائز ہونے کے باوجود انتہائی آسان اور سادہ زبان بولتے تھے جس کو سمجھنا اور ہضم کرنا خواص تو خواص عوام کے لیے بھی بے حد آسان ہوتا اور بسا اوقات آپ ایک ہی بات کو تین تین بار دہراتے بھی تھے ایسی صورت میں آپ کے ارشادات کو نہ سمجھنے یا سمجھنے میں غلطی کرنے کا کوئی امکان نہیں رہتا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابی سے کوئی بات تخلیہ میں نہیں فرماتے تھے اور جو کچھ اس سے فرماتے وہ خاص نہیں عام ہوتی تھی جس کے مخاطب تمام صحابہ کرام اور ان کے بعد امت کے تمام افراد تھے اور آپ بیشتر باتیں مختلف مجالس اور مواقع پر فرمایا کرتے تھے، کہیں اجمالاً تو کبھی تفصیلاً اور یہ تمام ارشادات صحابۂ کرام کے عقائد، اعمال، اخلاق اور آداب سے متعلق ہوتے، دوسرے لفظوں میں ان کے لیے مطلوب ہوتے، خواب و خیالات کی باتیں یا فلسفہ و منطق کے قضیے نہ تھے۔ اور اگر فہم و علم میں تفاوت کے نتیجے میں یہ امکان موجود تھا کہ صحابہ کرام میں سے بعض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات کو سننے میں یا سمجھنے میں نادانستہ طور پر غلطی کر جاتے رہے ہوں تو یہ امکان حدیث کے مقابلے میں قرآن پاک کے سننے میں زیادہ تھا، کیونکہ عربی معلی اور عربی مبین میں ہونے کے باوجود قرآن پاک کا اسلوب بیان ایک منفرد اور امتیازی شان رکھتا ہے اور اس میں اعراب کی ایسی باریکیاں اور تقدیرات اور محذوفات کی ایسی گتھیاں ہیں جن کی تہہ کو غور و تدبر کے بعد بھی پہنچنا مشکل رہتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ وہی لوگ جو روایت قرآن میں کبھی بھی غلطی نہیں کرتے تھے، وہی