کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 338
مبارک سے آپ کا کوئی ارشاد سنتے تو اس کے وحی الٰہی ہونے کا حق الیقین نہ ہوتا اور جب وہی ارشاد وہ ان لوگوں کو نقل کرتے جنہوں نے اسے براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہوتا تو ان کو اس کے کلام رسول یا وحی الٰہی ہونے میں شک ہوتا یا حق الیقین کے بجائے اس کے کلام رسول ہونے کا محض ظن یا گمان ہوتا۔
ثانیا اگر ان کی مراد ’’قرآن کی حفاظت کے حوالے سے روز اول سے حق الیقین کا معاملہ رہا ہے‘‘ سے یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت یا سورت کے نزول کے وقت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس کے سننے والوں کی تعداد ’’حد تواتر‘‘ کو پہنچ جاتی تھی تو اس دعویٰ کی نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ واقعات ہی سے اس کی تائید ہو سکتی ہے، بلکہ اس کو اگر ’’متواتر منتقلی‘‘ کی صفت حاصل بھی ہوتی تو مرور وقت کے ساتھ اور وہ بھی بالواسطہ اس طرح اس پر ’’تواتر لفظی‘‘ کا اطلاق درست نہیں ، زیادہ سے زیادہ اسے تواتر معنوی کا نام دے سکتے ہیں ۔
دراصل قرآن کے حق الیقین ہونے کا سبب وحید اس کا معجزانہ اسلوب بیان ہے نہ کہ اس کا روز اول ہی سے تواتر کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا جانا اور پھر فوراً اسے دوسروں تک منتقل کرنا، صحابہ کرام تو اہل زبان تھے آج بھی اگر کسی عربی دان کے سامنے قرآن کی کوئی آیت پڑھی جائے تو اگر وہ اس کا حافظ نہ بھی ہو تب بھی یہ محسوس کر لے گا کہ یہ عام عربی نہیں ہے، اور کسی عام آدمی کا کلام نہیں ہے۔
صحابہ کرام قرآن و حدیث میں ان کے فرق مراتب سے قطع نظر ان کے یکساں ماخذ شریعت ہونے میں نہ کوئی تفریق کرتے تھے اور نہ کر سکتے تھے، کیونکہ خود قرآن کے مطابق اللہ اور رسول کی اطاعت یکساں حکم اور درجہ رکھتی ہے، اور یہ شہادتین میں داخل ہے جو کلمۂ ایمان ہے۔
۴۔ قرآن کی ایک ایک آیت اور سورت کے بارے میں اللہ کا چیلنج ہر زمانے کے لیے موجود رہا ہے کہ ایسی کوئی مثال پیش کر کے دکھائی جائے۔
ڈاکٹر برنی کی مذکورہ بالا عبارت ببانگ دہل یہ اعلان کر رہی ہے کہ وہ عقل و فہم سے عاری محض ناقل ہیں اور جو کچھ لکھتے ہیں اس کو بھی نہیں سمجھتے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو قرآن کو منزل من اللہ نہیں مانتے اور سمجھتے تھے بلاشبہ یہ چیلنج کیا ہے کہ وہ اس کی مانند کوئی ایک ہی سورت بنا کر دکھا دیں ، لیکن قرآن پاک میں کہیں اشارۃ بھی اس کے مانند ایک آیت یا دو آیت بنا کر پیش کرنے کا چیلنج نہیں کیا گیا ہے۔
آغاز امر میں قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں شک کرنے والوں یا اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام کہنے والوں کو مطلقاً اس جیسا کلام بنا کر پیش کرنے کا چیلنج کیا گیا، ارشاد الٰہی ہے:
﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَہُ بَل لَا یُؤْمِنُوْنَ ، فَلْیَاْتُوا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖ اِِنْ کَانُوْا صَادِقِیْنَ﴾ (الطور:۳۳۔۳۴)