کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 324
کے بعض الفاظ میں تھا، کیونکہ دنیا کی کوئی بھی زبان ایسی نہیں رہی ہے جو علاقوں ، خطوں اور قبیلوں کے اعتبار سے الف سے یا تک مختلف رہی ہو۔ لیکن بعد میں مسلمان ہونے والے شامیوں اور عراقیوں کو قرأتوں کے ان اختلافات کا علم نہیں تھا، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگے تھے، یہ ایک بہت بڑا فتنہ تھا جس کا گلا پہلے ہی دن گھونٹ دینا ضروری تھا اور عثمان رضی اللہ عنہ نے خلیفہ راشد کی حیثیت سے قریش کے لہجے میں قرآن کا نسخہ تیار کر کے اور دوسرے تمام لہجات کو کالعدم کرکے صرف لہجۂ قریش میں قرآن کی تلاوت کا لوگوں کو پابند بنا کر اس فتنہ کا گلا ہمیشہ کے لیے گھونٹ دیا۔[1] جبریل علیہ السلام جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کو نازل کرنے کے مکلف بنائے گئے تھے، اسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ وہ ہر سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے اجزاء کو آپ سے سنیں اور انہیں آپ کو سنائیں بھی، احادیث میں اس کے لیے عرض، معارضہ اور مدارسہ کے الفاظ آئے ہیں ۔ اس حکم الٰہی کی تعمیل میں جبریل علیہ السلام ہر سال رمضان المبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اس سال نازل ہونے والی آیتوں اور سورتوں کو آپ سے سنتے اور انہیں آپ کو سناتے، یہ سلسلہ پورے ۲۳ سال جاری رہا اور عمر مبارک کے آخری سال کے رمضان المبارک میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پورا قرآن جو سوائے سورۂ نصر اور بعض سورتوں کی بعض آیتوں کے نازل ہو چکا تھا، دوبار سنا اور دو بار آپ کو سنایا۔[2] مصحف شریف میں درج تمام سورتوں کی آیتیں از اول تا آخر من جانب اللہ مرتب ہیں ، لیکن سورتوں کی ترتیب اجتہادی ہے اور مصحف صدیقی تیار کرتے وقت یہ ترتیب عمل میں لائی گئی ہے، لیکن چونکہ یہ عمل ایک خلیفۂ راشد کے حکم سے اور اس کے عہد خلافت میں انجام دیا گیا اور تمام صحابۂ کرام نے متفقہ طور پر اسے قبول کیا، اس لیے سورتوں کی جو ترتیب موجودہ مصحف عثمانی میں موجود ہے وہ حجت ہے، میں نے یہاں ’’اجماع‘‘ کا لفظ قصداً استعمال نہیں کیا ہے، کیونکہ بعض صحابۂ کرام نے ذاتی طور پر جو مصحف لکھ رکھا تھا اس میں سورتوں کی ترتیب وہ نہیں تھی جو مصحف عثمانی میں ہے، اسی وجہ سے نماز میں سورتوں کی تلاوت ترتیب سے واجب نہیں ہے یا اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔[3]بہرحال یہ میرا موضوع بحث نہیں ہے، میرا موضوع یہ ہے کہ قرآن کے جستہ جستہ اور تھوڑا تھوڑا نازل ہونے کی وجہ سے نہ اس کی آیتیں ترتیب کے ساتھ لکھی جا سکتی تھیں اور نہ سورتیں ، بلکہ جو کچھ نازل ہوتا تھا وہ اسی نزولی شکل میں لکھ کر محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ اب جہاں تک مصحف صدیقی میں سورتوں اور آیتوں کی ترتیب کا مسئلہ ہے تو سورتیں بھی مرتب ہیں اور آیتیں بھی:
[1] بخاری ۲۹۸۷، فتح الباری ص ۲۱۹۷۔ ۲۱۹۸ ج۲ [2] بخاری ۳۶۲۴، ۴۹۹۸، ۴۹۹۹، مسلم ۲۳۰۸ [3] فتح الباری ص ۲۲۰۶ ج۲۔ البرھان فی علوم القرآن ص ۱۸۴۔ ۱۸۵ ج۱، الاتقان ص ۲۲۰ ج۱۔