کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 323
تحویل میں رہا۔ خلیفۂ سوم عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک کے جو نسخے تیار کرائے تھے، وہ اسی مصحف صدیقی سے نقل کیے گئے تھے، ان کی تعداد سات تھی ایک نسخہ مدینہ میں خلیفہ المسلمین کی تحویل میں رہا اور بقیہ چھ نسخے مکہ، شام، یمن، بحرین، بصرہ اور کوفہ بھجوا دئیے گئے اور لوگوں کو حکم دیا گیا کہ قرأتوں میں اختلاف کی صورت میں اس مصحف عثمانی کی پابندی کی جائے جو قریش کے لہجے کے مطابق تھا۔ [1] جس طرح مصحف صدیقی عام لوگوں کے پڑھنے کے لیے نہیں تھا، اسی طرح مصحف عثمانی بھی عام لوگوں کی تلاوت کے لیے نہیں ، بلکہ تمام مسلمانوں کو قریش کے لہجے پر متحد کرنے کے لیے بطور سند اور اتھارٹی تیار کیا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پوری خلافت راشدہ میں اور اس کے بعد کے زمانوں میں کوئی ایک بھی واقعہ حدیث اور تاریخ کی کسی کتاب میں ایسا نہیں ملتا جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ قرآن پاک کی کسی آیت کے بارے میں کوئی اختلاف پیدا ہوا ہو اور کسی کو لکھے ہوئے قرآن پاک کے نسخے سے رجوع ہونے کی ضرورت پڑی ہو، اسی طرح صحابہ کرام کے بعد مسلسل تین صدیوں میں وہ سینوں سے سینوں میں پوری یکسانیت کے ساتھ منتقل ہوتا رہا۔ خلیفۂ سوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جس اختلاف قرأت کی خبر سن کر قریش کے لہجہ میں قرآن پاک کا نسخہ تیار کرایا تھا وہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے مطابق یہ تھا کہ ارمینیہ اور آذربائجان کی فتوحات کے زمانے میں انہوں نے یہ دیکھا کہ اسلامی لشکر میں شامل اہل شام مشہور صحابی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت کے مطابق قرآن کی قرأت کرتے ہیں اور اہل عراق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت کے مطابق ان دونوں جلیل القدر صحابیوں میں قرأتوں میں جو بعض معمولی لہجاتی اختلافات تھے وہ ان ساتوں قرأتوں کے مطابق اور ان کے دائرے میں تھے جن کی اجازت خود قرآن نازل کرنے والے نے حامل وحی جبریل علیہ السلام کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی، تاکہ قریش کے علاوہ دوسرے قبیلوں کے لوگوں کو اپنے خاص لہجوں میں قرآن پاک کی تلاوت کرنے میں آسانی رہے، لیکن قرآن پاک اصلاً قریش ہی کی زبان اور انہی کے لہجے میں نازل ہوتا تھا اور اس کا جو حصہ جبریل علیہ السلام لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نازل ہوتے تھے اس کو وہ پہلے قریش ہی کے لہجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھاتے تھے، پھر آپ کی طلب پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کو قریش کے علاوہ دوسرے قبیلوں کے لب و لہجے میں بھی پڑھا دیتے تھے، کیونکہ قریش سے تعلق رکھنے کی وجہ سے قریش ہی کی زبان آپ کی زبان تھی اور قرآن یہ تصریح کرتا ہے کہ ہر رسول اپنی قوم ہی کی زبان کے ساتھ بھیجا جاتا رہا ہے ۔ (ابراہیم۴) یہاں یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ قرأتوں میں یہ توسیع اور تنوع پورے قرآن میں نہیں ، بلکہ اس کی بعض آیتوں
[1] فتح الباری ص ۲۱۹۸۔ ۲۱۹۹ ج۲