کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 322
ان کا کھوکھلا پن دکھا سکوں ۔ جہاں تک پہلے دعوے کا تعلق ہے تو یہ بات بالکل درست ہے کہ قرآن پاک اپنے آغاز نزول ہی کے وقت سے قلم بند کرلیا جاتا تھا، لیکن یہ دعویٰ عقل و نقل دونوں کی میزان میں بالکل بے وزن ہے کہ اس کی ترتیب بھی وحی الٰہی کی روشنی میں متعین کر دی گئی تھی۔ کیونکہ جو کتاب تھوڑا تھوڑا کر کے ۲۳ سالوں میں نازل ہوئی ہو یا نازل کی گئی ہو وہ اس صورت میں ترتیب کے ساتھ یا مرتب شکل میں لکھی جا سکتی تھی، جبکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہوتی یا آپ کو لوح محفوظ میں موجود قرآن پاک کا اس کے نزول سے پہلے ہی مکمل علم ہوتا جیسا کہ صوفیاء کا دعوی ہے کہ جبریل محمد ازلی سے لے کر محمد حادث پر نازل کرتے تھے، یا قرآن پاک موجودہ دور میں استعمال کیے جانے والے ’’کاغذ‘‘ کے مانند کسی خاص چیز پر لکھا جاتا اور نازل ہونے والی آیتوں یا سورتوں کو قلم بند کرنے کے بعد کچھ صفحات خالی چھوڑ دئیے جاتے جن پر بعد میں نازل ہونے والی آیتوں یا سورتوں کو لکھ لیا جاتا، پھر بھی یہ مسئلہ حل نہ ہوتا، کیونکہ یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ جو آیتیں اور سورتیں بعد میں نازل ہونے والی ہیں وہ کتنی ہیں اور ان کو لکھنے کے لیے کتنے صفحات درکار ہیں ؟ معلوم ہوا کہ قرآن پا ک کی جو آیتیں یا سورتیں نازل ہوتی تھیں وہ لکھ تو بلاشبہ لی جاتی تھیں ، مگر اسی طرح غیر مرتب شکل میں جس شکل میں وہ نازل ہوتی تھیں اور وہ بھی کسی خاص چیز پر نہیں ، بلکہ مختلف چیزوں پر جو اس زمانے میں لکھنے کے لیے میسر تھیں ، جیسے چمڑے، ہڈیاں ، سفید باریک پتھر اور کھجور کے تنے وغیرہ۔ ڈاکٹر برنی نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’اس کی ترتیب بھی وحی الٰہی کی روشنی میں متعین کر دی گئی تھی‘‘ تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ اگر ’’وحی الٰہی‘‘ سے ان کی مراد قرآن پاک ہے تو قرآن پاک میں کہیں بھی اس ترتیب کا تعین نہیں کیاگیا ہے اور اگر ’’وحی الٰہی‘‘ سے ان کی مراد حدیث ہے تو اولاً تو اصلاحی مکتبۂ فکر کے لوگ حدیث کو ’’وحی الٰہی‘‘ نہیں مانتے (ملاحظہ ہو علوم القرآن، جنوری۔ جون ۲۰۱۰ھ، ص:۱۸۔۲۳) ثانیا جن حدیثوں میں یہ بات آئی ہے وہ ضعیف ہونے کے علاوہ ’’خبر واحد‘‘ ہیں اور عقائد کے باب میں خبر واحد ان کے نزدیک ناقابل استدلال ہے۔[1] حاصل کلام یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن پاک اسی شکل میں غیر مرتب لکھ لیا جاتا تھا جس شکل میں وہ نازل ہوتا تھا اور چونکہ نزول قرآن کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف ۲۱ روز قبل مکمل ہوا ہے اس لیے وہ غیر مرتب اور متفرق اجزاء کی شکل میں ہی تحریر شدہ موجود رہا اور سب سے پہلے مرتب شکل میں اور یکجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفۂ اول ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں لکھا گیا اور صرف ایک نسخہ جو ان کی زندگی میں ان کی تحویل میں رہا، پھر خلیفہ دوم عمر رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آ گیا اور ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کی
[1] ملاحظہ ہو ابوداود حدیث نمبر ۷۸۶۔ ترمذی: ۳۰۸۶۔ سنن نسائی کبری: ۸۰۰۷ اور فتح الباری ص:۲۲۰۷ ج۲