کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 315
ارشاد دہرانے میں سو فیصد بجانب ہوں گے کہ: ﴿اِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْن﴾ (الانعام: ۱۱۶) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں کہیں اشارۃً بھی یہ نہیں فرمایا ہے کہ حدیث واحد اپنے مدلول میں ظنی ہے اور نہ کہیں یہی فرمایا ہے کہ عقائد اور ایمانیات کے باب میں حدیث واحد توناقابل استدلال ہے رہی حدیث متواتر تو اگر وہ ذات و صفات سے متعلق ہو تو قابل تاویل ہے اور اگر دوسری غیبیات کے بارے میں ہو تو قابل قبول ہے، یہ ساری باتیں اور یہ سارے دعوے ان منکرین کی بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ رہی سورۂ یونس کی آیت نمبر۳۲: ﴿وَ مَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُہُمْ اِلَّا ظَنًّا اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْن﴾ (یونس: ۳۶) ’’اور ان میں سے اکثر صرف گمان کی پیروی کر رہے ہیں بلاشبہ گمان حق کو کچھ بھی دفع نہیں کرسکتا، درحقیقت اللہ کو اس کا پورا علم ہے جو وہ کر رہے ہیں ‘‘ تو اس آیت سے حدیث کی ظنیت پر استدلال کرنا راویان حدیث اور حدیث پر عمل کرنے والوں کو مشرکین سے تشبیہ دینا ہے، کیونکہ اس آیت کا تعلق مشرکین اور ان کے مختلف گروہوں سے ہے، آیت کا ترجمہ اور مختصر تشریح درج ذیل ہے: اس آیت کریمہ میں ظن سے مراد مشرکین کا وہ اعتفاد ہے جو وہ اپنے ٹھہرائے ہوئے اللہ کے شریکوں کے بارے میں رکھتے ہیں اور اس کے بالمقابل حق سے مراد اللہ کا وہ عذاب ہے جو ان کے شرک کی پاداش میں ان کے لیے قطعی طور پر ثابت اور حق ہے، ارشاد الٰہی کا مطلب ہے کہ یہ مشرکین اللہ کے اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے اختیارات و تصرفات کا جو اعتقاد۔ ظن۔ رکھتے ہیں وہ ان سے حق۔ اللہ کے عذاب۔ کو کچھ بھی دفع اور زائل نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ قرآن پاک میں ’’اغنی یغنی اغناء ‘‘ کا صلہ جب ’’عن‘‘ آتا ہے تو اس کے معنی فائدہ دینے اورنفع پہنچانے کے ہیں اور جب اس کا صلہ ’’من ‘‘ آتا ہے تو اس کے معنی دفع کرنے، زائل کرنے اوردور کرنے کے ہیں ، ملاحظہ ہو: ﴿ وَّلَا یُغْنِی مِنَ اللّٰہَبِ ﴾ (المرسلات: ۳۱) اور: ﴿وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ ﴾ (الغاشیہ: ۷) حدیث سے حاصل ہونے والا علم یقین ہے: حدیث سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یقینی علم ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ حدیث واحد، ہے یا حدیث متواتر، راویوں کی کثرت وقلت سے یقین کے درجات میں کمی بیشی ہوتی ہے نہ کہ راویوں کے کم ہونے یا ایک ہونے کی صورت میں