کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 314
’’جن لوگوں نے شرک کیا ہے وہ کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کوئی چیز حرام ٹھہراتے اسی طرح ان سے پہلے کے لوگوں نے تکذیب کی روش اختیار کیا تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا ہے، کہو، کیا تمہارے پاس کوئی ایسا علم ہے جسے تم ہمارے لیے برآمد کرو تم لوگ محض گمان کی پیروی کر رہے ہو اور تم اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکل پچو سے کام لے رہے ہو ‘‘
اس آیت میں ’’ظن ‘‘ بمعنی قیاس آرائی اور اٹکل پچو بالکل واضح ہے، کیونکہ شرک کو اللہ کی مشیت کا نتیجہ قرار دینے کے معاملے میں ان کے دعویٰ کے پیچھے کوئی علمی دلیل نہیں تھی، بلکہ وہ محض قیاس آرائی سے کام لیتے ہوئے ایسا کہہ رہے تھے۔
۵۔ ظن بمعنی خواہش نفس:
﴿اِِنْ ہِیَ اِِلَّا اَسْمَآئٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اَنزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ اِِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰی ﴾ (النجم: ۲۳)
’’یہ تو محض چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیے ہیں اللہ نے ان کے ساتھ کوئی دلیل نہیں نازل فرمائی ہے یہ لوگ تو صرف ظن اور اس چیز کی پیروی کررہے ہیں جو ان کا جی چاہتا ہے، جبکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے ‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اللہ کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کو معبود بنانے اور ان کی پرستش کو’’ظن ‘‘ اور خواہش نفس کی پیروی قرار دیا ہے، کیونکہ ان کا یہ عمل اللہ اور رسول کی کسی دلیل اور برہان پر مبنی نہیں تھا۔
اوپر’’ظن ‘‘ کے استعمالات سے متعلق جو پانچ آیتیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے پہلی آیت کو چھوڑ کر بقیہ چار آیتوں میں باطل پرستوں کے عقیدہ وعمل کو بیان کرتے ہوئے اس کو غلط قرار دیا گیا ہے اور چونکہ باطل پرستوں کے عقائد واعمال کسی دلیل پر مبنی نہیں ہوتے اس لیے اہل باطل کے درمیان اختلافات کے باوجود ان سب کے عقائد و اعمال کو مبنی بر ظن بتایا ہے۔
لیکن لقائے الٰہی کا یقین رکھنے والوں کے لیے اگرچہ’’ظن ‘‘ کی تعبیرہی اختیار فرمائی گئی ہے، مگر یقین واذعان کے معنی میں بایں طور کہ لقائے الٰہی غیب سے تعلق رکھنے اور غیر مشہود ہونے کی وجہ سے ہے تو’’ظن ‘‘ ہی، مگر نبیوں اور رسولوں کے خبر دینے کی وجہ سے یقینی ہے، کیونکہ انبیاء کوئی بات خواہشات نفس سے نہیں کہتے تھے، بلکہ وحی الٰہی کی بنیاد پر کہتے تھے اور وحی یقینی ذریعۂ علم ہے، اگرچہ غیر مشاہد ہے۔
اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کی ظنیت اور عقائد اور ایمانیات کے باب میں حدیث واحد کے ناقابل استد لال ہونے کا جو دعویٰ معتزلہ، متکلمین، فقہاء اور منکرین حدیث کرتے ہیں وہ بھی اپنی پشت پر کتاب اللہ سے کوئی دلیل اور برہان نہ رکھنے کے باعث محض قیاس ورائے، خواہش نفس اور اٹکل پچو ہے اور ان کے حق میں ہم اللہ تعالیٰ کا یہ