کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 31
کے ظاہر اور مخفی گوشوں پر نظر رکھتے ہیں ۔ مولانا عزیر سے میں اس وقت سے واقف ہوں جب وہ مدینہ منورہ کی جامعہ اسلامیہ میں زیر تعلیم تھے ان دنوں میں ریڈیو کی جانب سے برصغیر کے طلباء سے انٹرویو کرنے کے لیے مدینہ منورہ جایا کرتا تھا اس وقت سے ان سے تعلق ہے۔ مولانا عزیر مجھ سے بڑے ہیں ، لیکن میں ان سے پہلے پیدا ہوا ہوں وہ خود بھی وسیع علمی مکتبہ کے مالک ہیں اور جس علمی اور تحقیقی ادارہ سے وابستہ ہیں اس کے پاس تو کتابوں کا بہت بڑا خزانہ ہے۔ شیخ عزیر نے محدثین کا تواضع پایا ہے وہ اردو زبان میں انکار حدیث کے موضوع پر لکھی گئی چھوٹی بڑی کتابوں سے نہ صرف واقف ہیں ، بلکہ ان کا مطالعہ کر چکے ہیں اور وہ ان کے مکتبہ میں موجود بھی ہیں ، انہوں نے ازراہ کرم انکار حدیث سے متعلق ہر طرح کی کتابیں مجھے فراہم کیں ، حتی کہ اگر اس موضوع پر ان کے پاس کوئی مضمون ہی تھا تو بھی انہوں نے مولانا عبدالغفار صاحب کے ذریعہ اسے میرے پاس بھیجا۔ میں حدیث کا روایتی عالم نہیں ہوں ، میری ۴۵ سالہ زندگی ریڈیانی پروگرام تیار کرنے اور پیش کرنے میں گزری ہے، یہ صحیح ہے کہ میں نے ریڈیو سے حدیث کے موضوع پر بھی طویل اور کامیاب پروگرام نشر کیے ہیں اور ۲۵ برسوں پر پھیلی ہوئی مدت میں سامعین کے سوالوں کے جو مدلل جوابات دئیے ہیں ان کی تیاری میں مجھے حدیث کی کتابوں سے رجوع کرنا پڑا ہے میں نے اس پروگرام میں ہزاروں سوالوں کے جوابات دیئے ہیں اور مدلل اور حوالوں کے ساتھ دیئے ہیں ۔ بایں ہمہ میں حدیث کے ایک طالب علم سے زیادہ کچھ نہیں ہوں ، اس پس منظر میں مجھے ایک ایسے شخص کی رائے درکار تھی جو صحیح معنوں میں عالم حدیث ہو، میں نے شیخ عزیر سے درخواست کی کہ وہ میرے مسودے کو دیکھ کر اس کے بارے میں اپنی گراں قدر رائے سے مجھے سرفراز فرمائیں ، اور وہ از راہ نوازش راضی ہوگئے۔ میں جو پروگرام یا مضمون یا کتاب لکھتا ہوں برجستہ اور قلم برداشتہ لکھتا ہوں ، اس طرح جب میں سو یا دو سو صفحے لکھ لیتا تو اس کو شیخ عزیر کے پاس بھیج دیتا، انہوں نے کتاب کا پہلا باب دیکھنے کے بعد اس کی تصویب فرمائی جس سے مجھے مزید حوصلہ ملا، پھر میں لکھتا رہا اور ان کو بھیجتا رہا اور انہوں نے اپنی مصروفیت کے باوجود کوئی ۱۵۰۰ صفحے دیکھ لیے۔ اس کتاب کا محوری موضوع ہے: قرآن کی طرح حدیث بھی شرعی ماخذ ہے‘‘ حدیث کو یہ حیثیت اللہ تعالیٰ نے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاعت کو فرض کر کے دی ہے، یہ کتاب از اول تا آخر اسی محور کے گردگھومتی ہے۔ حدیث کو خبر واحد اور خبر متواترمیں تقسیم کرنے اور دین کو عقائد اور احکام یا اصول وفروع کے خانوں میں بانٹنے اور خبرواحد سے عقائد یا اصول کی کسی بات کے ثابت نہ ہونے کے سارے دعوے غیر قرآنی ہیں اس بات کو کتاب میں دلائل کی قوت سے ثابت کیا گیا ہے، اور یہ دکھایا گیا ہے کہ قرآن کے مطابق حدیث کی صحت کا مدار عدالت راوی پر ہے، تعدد رواۃ پر نہیں ۔