کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 303
سیّد رشید رضا کی عبارت اور اس پر شیخ غزالی کے زہر آلود تبصرے میں چند نہایت گمراہ کن باتیں آگئی ہیں جن کو مختلف عنوانوں کے تحت بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت اور تمثیل: سید رشید رضا نے پیدائش کے موقع پر انسانی بچوں کو شیطان کے چھونے والی حدیث کے بارے میں محمد عبدہ کا جو یہ قول نقل کیا ہے کہ’’اگر یہ حدیث صحیح ہے تو یہ تمثیل ہے حقیقت نہیں اور شاید بیضاوی کا بھی یہی خیال ہے، اس قول پرمیرا تبصرہ یہ ہے کہ یہ حدیث یقینا صحیح ہے اور اس میں امر واقعہ اور حقیقت ہی بیان کی گئی ہے اور یہ تمثیل نہیں ہے شیخ محمد عبدہ نے جو کچھ فرمایا ہے اور ان سے پہلے ناصرالدین ابو الخیر عبداللہ بن عمربیضاوی متوفی ۶۹۱ء نے اپنی تفسیر: ’’انوار التنزیل واسرار التاویل ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ﴾ (البقرہ: ۲۷۵) ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں کھڑے ہوں گے، مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جس کو شیطان نے چھو کر باؤلا بنا دیا ہو۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے جو دعویٰ کیا ہے وہ دراصل معتزلہ اور متکلمین سے مأخوذ ہے، تفسیر بیضاوی در حقیقت جار اللہ زمخشری معتزلی متوفی ۵۳۸ھ کی تفسیر: الکشاف کا خلاصہ ہے، میں گزشتہ صفحات میں دلائل سے یہ واضح کرچکا ہوں کہ متکلمین۔ اشاعرہ اور ماتریدی۔ اگرچہ معتزلہ کے مخالفین کے طور پر ابھرے تھے، لیکن عقائد اور حدیث کی شرعی حیثیت کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر معتزلہ کے نقطۂ نظر سے مختلف نہیں ہے، بیضاوی اگرچہ شافعی المسلک متکلم یعنی اشعری تھے مگر اس آیت کی تفسیر میں انہوں نے زمخشری کا قول جوں کا توں نقل کردیا ہے اور زمخشری کا دعویٰ ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ﴾حقیقت کا بیان نہیں ، بلکہ عربوں کے وہم خیال کا ترجمان ہے۔[1] یہاں موقع کی مناسبت سے عرض کردوں کہ برصغیرکے عقیلت پسندوں کے افکار و خیالات بھی بڑی حدتک معتزلہ کے افکارو خیالات سے ہم آھنگ ہیں ،مشہور صوفی ادیب و مصنف عبدالماجد دریا آبادی الحاد کی تاریکی سے نکل کر تصوف کی گود میں چلے گئے تھے اور مولانا تھانوی کے زیر تربیت رہ کر بہت بڑے صوفی بن گئے تھے بایں ہمہ انہوں نے اپنے پیرو مرشد کے برعکس ’’مس الشیطان ‘‘ کو عربی محاورہ قرار دیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت میں ’’تخبط ‘‘ کو عرب مخاطبین کے اعتفاد کے مطابق شیطان کی طرف منسوب کردیا گیا ہے،پھر اپنے اس دعویٰ کی تائید میں معتزلہ اور قفال شافعی اور زمخشری اور راغب اشعری کے اقوال نقل کردیے ہیں ۔[2]
[1] ص ۵۰۵ ج۱ [2] تفسیر ماجدی ص ۵۰۴ ج ۲