کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 301
اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے اس طرح کے مفروضے خود قائم کر لیے ہیں ۔ مزید بران حدیث میں انسانوں پر ابلیس اور اس کے کارندوں کے اختیارات کابھی کوئی ذکر نہیں ہے، ان اختیارات کا بھی نہیں جن کا ذکر خود قرآن میں آیا ہے، لہٰذا اس حدیث کوان افسانوی حکایتوں اور ان خرافاتی قصوں کا سبب قرار دینا جہالت اور ھٹ دھرمی ہے جو مسلمانوں میں ’’جن لگنے ‘‘ اور جنوں یا شیطانوں کے انسانوں کے جسموں میں داخل ہونے اور ان کی زبانوں سے بولنے اور گفتگو کرنے سے متعلق عام اور زبان زد ہیں ۔ در حقیقت مسلمان علماء اور باحثین میں بعض لوگوں کو حدیث سے شدید پرخاش، بلکہ نفرت رہی ہے، اس لیے وہ موقع اور بے موقع حدیث کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں اسی طرح کے لوگوں میں سے ایک شیخ غزالی بھی تھے، وہ کسی صحیح حدیث کی صحت و عدم صحت سے بحث کرتے وقت جہاں حد اعتدال سے منحرف ہوجاتے تھے وہیں اس حدیث کو بنیاد بنا کرمسلمانوں کی ایسی بہت سی بد عقیدگیوں اور بد اعمالیوں کا ذکر چھیڑ دیتے تھے جن کو پیدا کرنے اور ترویج دینے میں اس حدیث کا کوئی ہاتھ نہیں ہے، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں صحیحین کی بعض حدیثوں پر ان کے اعتراضات کابے لاگ جائزہ لیتے ہوئے دکھایاجاچکا ہے۔ شیخ غزانی نے اس زیر بحث حدیث کی صحت و عدم صحت پر کوئی سنجیدہ علمی اور اصولی بحث کرنے کے بجائے مسلمانوں کے فکری اور مادی انحطاط، ان کی بد عقیدگیوں ، اور بد اعمالیوں اور ان کی پسماندگیوں کا ذکر چھیڑ دیا ہے اور ان کا سبب اس حدیث یا اس مضمون کی حامل دوسری صحیح حدیثوں کو قراردیا ہے، پھر عقائد اور غیبیات کے باب میں احادیث آحاد کے ناقابل استدلال ہونے کی بحث چھیڑدی ہے اور ایسے لوگوں کے اقوال سے استدلال شروع کردیا ہے جو علم حدیث سے نا بلد ہونے کے ساتھ ساتھ اشاعرہ سے نسبت رکھتے تھے، جیسے شیخ محمد عبدہ اور ان کے شاگرد سید رشید رضا اور یہ معلوم ہے کہ اشعر یہ اور ما تریدیہ عقائد کے باب میں احادیث آحاد کو نہیں مانتے اس طرح وہ اہل سنت و جماعت کے حریف ہوئے، جو قرآن کی طرح حدیث کو بھی شرعی حجت اور دلیل مانتے ہیں اور اس مسئلہ میں حدیث واحد اور حدیث متواتر اور عقائد و غیر عقائد میں کوئی تفریق نہیں کرتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اشارۃ بھی یہ تفریق نہیں کی ہے، ایسی صورت میں شخ غزالی کو اس زیر بحث حدیث کی عدم صحت کو قرآن سے ثابت کرنے کی ضرورت تھی نا کہ ان علماء کے اقوال سے جو عقائد اور غیبیات کے باب میں احادیث آحاد کے شرعی حجت ہونے کے منکر ہیں ۔ اس حدیث کے بارے میں شیخ غزالی نے صاحب ’’المنار ‘‘ سید رشید رضا متوفی ۱۹۳۵ع کی رائے نقل کر کے اپنی رائے کا بھی اظہار کردیا ہے اس لیے میں رشید رضا کی وہ عبارت نقل کر کے اس پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں جسے غزالی نے اپنی کتاب’’ النسۃ النبویہ بین اھل الفقہ واھل الحدیث ‘‘ میں اپنی تائیدمیں نقل کی ہے اس عبارت میں احادیث آحاد کی شرعی حیثیت اور عقائد کے باب میں حقیقت اور مجاز سے متعلق متکلمین اشاعرہ کے بہت سے افکار آگئے ہیں ، وہ فرماتے ہیں :