کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 289
ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (الروم: ۳۰) ’’ہر طرف سے منہ موڑ کر اپنا رخ ’’الدین‘‘ کی طرف کر لو، اللہ کی اس فطرت کو لازم پکڑو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو مت بدلو، یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ آپ کے پیرو کاروں کو تمام ادیان سے منہ موڑ کر جس دین کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ دین فطرت یعنی دین توحید ہے جس کا دوسرا نام اسلام ہے: ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآء َہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ﴾ (آل عمران: ۱۹) ’’درحقیقت اللہ کے ہاں دین صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے تو اس میں علم حق آجانے کے بعد محض عناد کی وجہ سے اختلاف کیا اور جو کوئی اللہ کی آیات کا انکار کرے گا تو اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جتنے بھی نبی اور رسول بھیجے سب کا دین اسلام ہی تھا اور ہر نبی اور رسول نے اپنی قوم کو اس دین اسلام کی دعوت دی تھی۔ بعد میں اس دین کو مسخ کرکے اور اس میں کمی بیشی کرکے دوسرے جو بہت سے مذاہب اور ادیان بنا لیے گئے تو ان کے پیچھے راہ حق سے تجاوز اور انحراف کے سوا کوئی اور چیز کار فرما نہ تھی۔ یاد رہے کہ قرآن اس طرح کے مواقع پر جب ’’دین‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس سے اس کی مراد ہر وہ طرز عمل اور طریقہ ہوتا ہے جس پر ایک مسلمان پوری زندگی میں اپنے اختیار، مرضی اور پسند سے عمل پیرا رہتا ہے، نیند سے بیدار ہونے کے بعد سے دوبارہ بستر کا رخ کرنے تک اس کا ہر عمل اس دین میں داخل ہے، اعلیٰ سے اعلیٰ کام سے لے کر بظاہر معمولی اور حقیر قول وعمل تک ہر چیز میں وہ قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے اسی طرح جواب دہ ہوگا جس طرح اس سے اس کی نماز، روزہ، زکوٰۃ، اور حج کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اگرچہ زندگی کے ان اعمال میں بعض کو بعض سے زیادہ اہمیت اور فضیلت حاصل ہے، مختصر لفظوں میں اسلام میں پوری زندگی دین میں داخل ہے، بندوں پر اللہ کے حقوق، بندوں پر بندوں کے حقوق اور بندوں پر ان کے بدن کے حقوق ان سب کے بارے میں ایک مسلمان سے پوچھا جائے گا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ایک مومن ومسلم کے ہر طرز عمل، ہر حرکت اور ہر قول سے توحید کی خوشبو پھوٹنی چاہیے۔ درمیان میں اسی جملہ معترضہ کے بعد عرض ہے کہ اسی سورہ آل عمران کی پچاسیویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہایت واشگاف الفاظ میں یہ اعلان فرما دیا ہے کہ: ﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (آل عمران: ۸۵) ’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ