کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 287
کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ اس آیت میں کفر کے بالمقابل ایمان کے بجائے شکر کی تعبیر اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ ایمان درحقیقت شکر گزاری ہی کا نام ہے اور کفر سراسر ناشکری ہے۔ ﴿وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَآ اٰبَآئَ نَا وَ اللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (الاعراف: ۲۸) ’’اور جب یہ کسی برے کام کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی پر کاربند پایا ہے اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے، کہو، درحقیقت اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہو جو تم نہیں جانتے۔‘‘ مذکورہ بالا وضاحتوں کے بعد غزالی اور ان کے ہمنواؤں سے سوال ہے کہ ان کے پاس سورہ انفال کی مذکورہ آیت کے متعلق کیا خیال ہے، کیا نعوذ باللہ وہ بھی مردود ہے؟ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو سنت کے خلاف بھی قرار دیا ہے تو جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ معلوم نہیں اس سے ان کی کون سی سنت مراد ہے، پھر یہی سوال دوبارہ کر رہا ہوں کہ سنت سے ان کی مراد کیا ہے؟ اور اگر ان کے پاس عبداللہ بن مسعود کی حدیث سے زیادہ کوئی صحیح سنت یا حدیث تھی تو اتنے بڑے دعوے کی دلیل میں اس کو پیش کرنا ان پر فرض تھا۔ درحقیقت یہ منکرین حدیث بڑے بڑے دعوے کرنے میں شہرت رکھتے ہیں وہ محدثین پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کی نظر صرف حدیث کی سند پر رہتی تھی حدیث کا متن وہ نہیں پرکھتے تھے وہ کسی بھی حدیث پر سرسری اور طائرانہ نظر ڈال کر یہ حکم لگا دیتے ہیں کہ یہ قرآن کے خلاف ہے اور جب ان سے اس اختلاف یا تعارض کی دلیل مانگی جاتی ہے تو یا تو بغلیں بجانے لگتے ہیں یا قرآن کی اپنی تفسیر پر قرآن کا اطلاق کر دیتے ہیں ، سطور بالا میں امین اصلاحی، افتخار برنی اور غزالی کے دعوؤں کا تفصیلی جائزہ لے کر پوری تفصیل کے ساتھ ان کا کھوکھلا پن دکھا چکا ہوں اور جذبات سے دور رہ کر دلائل کی زبان میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ جتنی بھی حدیثوں کو انہوں نے قرآن کے خلاف قرار دیا ہے ان میں اور قرآن میں معمولی سا بھی تعارض نہیں ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو قرآن کے خلاف قرار دینے والے شیخ غزالی کی نظر عنایت قرآن پاک کی ایک دوسری ایسی آیت کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں جو ان کی نظر میں سورہ انفال کی آیت کی طرح اس حدیث سے زیادہ ’’جبر‘‘ کی مؤید ہونی چاہیے، لیکن کسی وجہ سے انہوں نے تقدیر کے مسئلہ میں اس کا ذکر کرنے سے گریز کیا ہے اگر وہ حق پسند اور حق جو ہوتے تو اس آیت کی مثال دے کر اور خود قرآن کی روشنی میں اس کی تفسیر کر کے یہ دکھا سکتے تھے کہ اس