کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 285
مراد ہے اس سے قبل انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے بارے میں بھی اسی طرح کا دعویٰ کیا تھاجس کا جواب قصہ موسیٰ وخضر علیہم السلام کی روشنی میں بڑی تفصیل سے دے چکا ہوں ۔
صحیحین میں مروی اس صحیح ترین حدیث کے خلاف قرآن ہونے کے ان کے دعوی کے پرخچے اڑانے سے پہلے میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ حدیث کسی بھی تاویل سے ’’جبر واکراہ‘‘ پر دلالت نہیں کرتی، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قضائے سابق اور علم ازلی کے وقوع پذیر ہونے کی ایک خاص کیفیت کو بیان کر رہی ہے اور یہ بتا رہی ہے کہ انسان اپنے اختیاری عمل ہی کے ذریعہ اپنے آخری انجام کا تعین کرتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو مجبور نہیں کیا ہے، البتہ کائنات کو پیدا کرنے والے علام الغیوب کو اس کو پیدا کرنے سے قبل یہ معلوم تھا کہ اس کے فلاں اور فلاں بندے کیا اعمال انجام دیں گے اور غزالی کو خود یہ اعتراف ہے کہ اللہ کے علم میں ماضی، حال اور مستقبل سب یکساں درجہ رکھتے ہیں ، حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کو ازل ہی سے یہ علم تھا کہ یہ شخص اپنے اختیار و ارادے سے خیر سے شر یا شر سے خیر کی طرف مائل ہو جائے گا اور خود اپنے عمل سے مستحق جزا یا سزا ہو جائے گا۔
غزالی نے اس حدیث کو قرآن کے خلاف قرار دیا ہے آئیے دیکھیں کہ قرآن کیا کہتا ہے، ارشاد ربانی ہے:
﴿یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ وَ اَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ﴾ (الانفال: ۲۴)
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول کا کہنا مانو، جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی دیتی ہے اور جان لو کہ در حقیقت اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور یقینا تم اس کی طرف سمیٹ کر لے جاے جاؤ گے۔‘‘
یہ آیت اپنے حکم میں بظاہر زیر بحث حدیث سے زیادہ سخت ہے اور اس سے سطح بینوں کے لیے ’’جبر‘‘ کا مفہوم لینے کی زیادہ گنجائش ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عمل کی جو آزادی اور اختیار دیا ہے اس سے نہ حدیث متعارض ہے اور نہ یہ آیت، حدیث کی تو وضاحت کی جا چکی ہے، رہی یہ آیت تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ورسول کے احکام سے اعراض برتنے کی صورت میں دل میں قبول حق کی صلاحیت اور استعداد کم ہوتے ہوئے ختم ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے انسان سے اپنی توفیق اٹھا لیتا ہے۔
اس آیت کے مخاطب اللہ کے مومن بندے ہیں ان کو اللہ ورسول کے حکم کی بے چون وچرا بجا آوری کی دعوت دیتے ہوئے اس بات سے خبردار کیا گیاہے کہ اگر وہ اس کے رسول کی حیات بخش دعوت اور پکار پر کان نہ دھرنے کی روش اختیار کریں گے تو ان کی یہ روش دھیرے دھیرے ان کو توفیق الٰہی ہی سے محروم کر سکتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں اور ان کے دلوں کے درمیان حائل ہے، بایں معنی کہ ان کے دل اس کے ہاتھ میں ہیں اور جو لوگ حق کی پکار پر لبیک