کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 282
حدیث متصل سند کے ساتھ نقل بھی کر دی ہے جس میں آیا ہے: حتی لا یکون بینہا وبینہ الازراع‘‘ اس حدیث میں جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر بطن مادر میں جنین کے جن تین ابتدائی مراحل کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے الفاظ میں کیا ہے، وہ خود قرآن پاک میں متعدد سورتوں میں اجمالاً اور تفصیلا مذکور ہیں (الحج: ۵، المؤمنون: ۱۲۔۱۶، غافر: ۶۷) سورہ مومنون میں ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طِینٍ، ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَئْنٰـہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ (المومنون: ۱۲۔۱۴) ’’اور درحقیقت ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے پیدا کیا ہے، پھر ہم نے اسے ایک بوند کی شکل میں ایک نہایت محفوظ ٹھکانے میں رکھا، پھر ہم نے اس بوند کو جمے ہوئے خون کی شکل دے دی، پھر ہم نے اس جمے ہوئے خون کو ایک بوٹی بنا دیا، پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیوں میں تبدیل کر دیا اس کے بعد ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت کی تہہ چڑھا دی، پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا پس بڑا بابرکت ہے اللہ جو پیدا کرنے والوں میں سب سے اچھا ہے۔‘‘ ان آیات مبارکہ میں ابو الانسان آدم علیہ السلام کی تخلیق کو مختصراً بیان کرنے کے بعد ان کی ذریت کی تخلیق کے مختلف مراحل کو بیان کیا گیا ہے اور رحم مادر میں جنین تخلیق کے جن مراحل سے گزرتا ہے ان کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا۔ یہ دراصل رحم مادر سے بچے کے نکلنے کے بعد کی اس کی صورت ہے جو ہر چیز میں جنین سے مختلف ہونے کی وجہ سے ایک دوسری ہی مخلوق بن جاتی ہے جس کی تفصیلات سورہ حج میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہیں : ﴿ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا﴾ (الحج: ۵) ’’پھر ہم تم کو ایک بچے کی شکل میں باہر نکالتے ہیں ، پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کچھ اٹھا لیے جاتے ہیں اور کچھ بدترین عمر کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں ، تاکہ علم رکھنے کے بعد کچھ نہ جانیں ۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ذریت آدم کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں وہ نہ صرف یہ کہ رحم مادر میں اپنی صورت سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی، بلکہ رحم مادر سے نکلنے کے بعد کے مراحل طفولت، جوانی، اور بڑھاپے میں سے ہر مرحلے میں بھی سابق مرحلے کی شکل وصورت اور میلانات اور رجحانات اور صلاحیتوں اور توانائیوں سے مختلف ہوتی ہے اس طرح اس پر ’’خلقا آخر‘‘ کا اطلاق کسی قدر مبنی بر حقیقت ہے!!!