کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 28
۶۔ روایت حدیث میں تمام صحابہ ’’عدول‘‘ اور قابل بھروسہ نہیں تھے۔ ۷۔ عہد نبوی میں جن احادیث آحاد کو قبول کر لیا جاتا تھا، اور پھر اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم جن صحابیوں کی منفرد روایتیں قبول کر لیتے تھے وہ عام صحابی نہیں ہوتے تھے، بلکہ وہ ایسے صحابی تھے جن کو معاشرہ میں ایک ’’عرفی‘‘ حیثیت بھی حاصل تھی یا وہ ’’حکومت اسلامیہ‘‘ کے نمائندے تھے۔ یہ اور اس طرح کی باتوں میں سے کچھ تو سراسر جھوٹ ہیں ، کچھ مغالطہ ہیں ، کچھ محض مفروضہ اور خیالی ہیں ، کچھ خلط مبحث ہیں اور بہت سی یہود ونصاریٰ سے تعلق رکھنے والے مستشرقین کا انکشاف ہیں ، البتہ ان میں سے کوئی بات بھی قرآنی نہیں ہے۔ اس کتاب میں منکرین حدیث کے مذکورہ بالا دعوؤں اور ان کی مزید ہرزہ سرائیوں کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ یوں تو منکرین حدیث میں آزاد خیال لوگوں کے علاوہ متکلمین، فقہاء اور صوفیا کا بھی شمار ہوتا ہے، لیکن چونکہ اس حوالہ سے اگر ان کے درمیان کچھ باتیں مشترک تھیں تو کچھ پر ان میں سے ہر ایک کی اپنی امتیازی چھاپ بھی تھی اس لیے حدیث کے قبول درد سے متعلق ہر ایک کے نظریات مستقل عنوانوں کے تحت بیان کر کے ان کا رد کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ جو جماعت عقیدہ توحید سے لے کر عبادات اور تہذیب اخلاق ہر چیز میں کتاب وسنت کی مخالفت پر اپنا مسلک حیات رکھتی ہے، وہ مسلمانوں کی سب سے دیندار جماعت سمجھی جاتی ہے اس کتاب میں اس جماعت کے عقائد، من گھڑت اوراد واذکار اور روحانی ریاضتوں کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور مستند حوالوں کے ساتھ یہ دکھایا گیا ہے کہ برصغیر کے صوفیا ’’روضہ شریفہ کا غبار‘‘ آنکھوں میں لگانے، ’’نور بنی‘‘ کو اصل کائنات کا عقیدہ رکھنے اور قبر مبارک کو عرش وکرسی اور کعبہ سے افضل واشرف ماننے کے باوجود حدیث کے قبول درد کے مسئلہ میں متکلمین ہی کے ہم عقیدہ تھے۔ اس مسئلہ میں ان کو یہ ’’امتیاز مزید‘‘ بھی حاصل رہا کہ انہوں نے اپنی کتابوں کو جھوٹی اور بے بنیاد روایتوں اور من گھڑت حکایتوں سے بھر دیا اس طرح تصوف ایک نیا دین بن گیا۔ اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن سے نکلنے والے احکام اور حدیث سے نکلنے والے احکام کے درجہ ومقام میں سرمو فرق نہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں اپنی اطاعت اور اپنے رسول کی اطاعت کو یکساں درجہ میں فرض قرار دیا ہے اور اللہ کی اطاعت اس کی کتاب کے اوامر ونواہی کی تعمیل کے سوا کچھ نہیں ہے، لہٰذا رسول کی اطاعت آپ کی حیات پاک میں آپ کے اوامر ونواہی کی تعمیل سے عبارت تھی، مگر آپ کی وفات کے بعد یہ حیثیت آپ کی حدیث یا سنت کو منتقل ہوگئی ہے، کیونکہ یہ دین قیامت تک کے لیے ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قرآن کی طرح حدیث بھی محفوظ ہو، ورنہ اطاعت رسول کا حکم الٰہی بے معنی یا ناقابل عمل قرار پائے گا؟ اس کتاب میں علم جرح و تعدیل اور ’’حدیث واحد‘‘ کے شرعی دلیل وحجت ہونے کی بحث بڑی معرکۃ الآراء بحث