کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 275
باتوں سے اس کو مطلع کر دے، علم غیب اللہ کی صفت ہے اور اس کی کسی صفت میں اس کا کوئی بندہ شریک نہیں ہے۔
ثالثا صوفیہ نے خضر علیہ السلام کی شخصیت کا جو ’’ہوّا‘‘ بنا کر کھڑا کر دیا ہے وہ دراصل ان کی پیر ستانہ اور اولیا پر ستانہ ذھنیت کی پیداوار اور اس ’’علم باطن‘‘ کا شاخسانہ ہے جو شیعوں کی ایجاد ہے۔ ورنہ اسلام میں نہ کوئی علم باطن ہے اور نہ علم لدنی۔
رابعاً قصہ موسیٰ وخضر علیہم السلام بیان کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنی وسیع وعریض کائنات میں جاری توڑ پھوڑ، آفات ومصائب اور ناگہانی موت وہلاکت کے پیچھے کار فرما بعض حکمتوں سے پردہ اٹھایا ہے جس سے انسان کو یہ درس دینا مقصود ہے کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور اہل ایمان کو یہ تلقین کرنا مقصود ہے کہ جان ومال کے ضیاع کی شکل میں ان پر جو آزمائشیں آتی ہیں ۔ ان میں ان کے لیے خیر ہی خیر مضمر ہے اس سے حدیث جبریل میں اچھی اور بری تقدیر پر ایمان کی روح کو سمجھا جا سکتا ہے۔
غزالی اپنی حدیث دشمنی میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ حق وباطل میں تمیز کھو چکے ہیں اور نادانی میں وہی باتیں دہراتے ہیں جو اہل سنت وجماعت کہتے ہیں ، قرآن کی وہی آیتیں مثال میں دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم ازلی اور قضائے سابق پر دلالت کرتی ہیں ، مگر جب اس مضمون کی حامل حدیثیں پیش کرتے ہیں تو ان میں ان کو ’’جبر‘‘ نظر آنے لگتا ہے: چنانچہ اپنی کتاب میں قضا وقدر کی فصل کے آغاز میں وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ علم الٰہی ایک مکمل اور تمام گوشوں پر محیط کتاب میں قلم بند ہے۔ اس کتاب میں غیب وحضور، اور ہر چھوٹی بڑی چیز حتیٰ کہ ذرات تک شامل ومدون ہیں ، وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ’’تمام لوگ چاہے وہ کافر ہوں ، یا مومن بچے ہوں یا بوڑھے وہ اس کتاب میں مرقوم اپنا نصیب اور حصہ لے کر رہیں گے، بلکہ دوسری مخلوقات چاہے وہ حیوانات ہوں یا جمادات اسی سچے علم سابق ہی کے دائرے میں گردش کرتی نظر آتی ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ﴾ (الحدید: ۲۲)
’’کوئی بھی مصیبت جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہے ایسی نہیں ہے جس کو ہم نے کتاب میں اس کو پیدا کرنے سے پہلے لکھ نہ دیا ہو در حقیقت ایسا کرنا اللہ پر بہت آسان تھا۔‘‘
اور اللہ نے مومنین کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس قدیم علم پر پر سکون اور مطمئن رہیں اور اس کی حقیقت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس دعا جز تصور کریں ، ارشاد الٰہی ہے:
﴿قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ہُوَ مَوْلٰنَا وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (التوبۃ: ۵۱) (ص ۱۷۰۔۱۷۱)