کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 274
یہ ارشاد الٰہی جو جلیل القدر اور یکے از اولو العزم رسول موسیٰ علیہ السلام کی زبان مبارک سے ادا ہوا ہے یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ لڑکا پاکباز اور بے گناہ تھا اور اس نے نا حق کسی کو قتل بھی نہیں کیا تھا ایسی صورت میں حضرت خضر کا اس کو ہلاک کرنا موسیٰ علیہ السلام کی نظر میں جو در حقیقت اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کی نظر تھی نہایت برا اور نا قابل قبول اقدام تھا۔
چونکہ خضر علیہ السلام مامور من اللہ تھے قطع نظر اس کے کہ ان کا مقام ومرتبہ کیا تھا، اس لیے انہوں نے اپنے اس اقدام کی توجیہہ اس طرح کی:
﴿وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا، فَاَرَدْنَآ اَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّ اَقْرَبُ رُحْمًا﴾ (الکہف: ۸۰۔۸۱)
’’اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ مومن تھے پس ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ وہ ان کو اپنی سرکشی اور کفر سے تنگ کرے گا، اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اور اولا دے جو پاکبازی میں اس سے بہتر اور صلہ رحمی میں اس سے قریب تر ہو۔‘‘
غور فرمائیے کہ اس ارشاد الٰہی کے مطابق ایک ایسے بچے سے حق حیات چھین لیا گیا کہ بڑا ہو کر وہ باغی اور کافر بننے والا تھا اور اس دقت تک اس نے نہ تو کوئی ایسا گناہ کیا تھا اور نہ کسی شخص کی جان ہی لی تھی کہ ان کے بدلے میں اس کی جان لینا شریعت کی رو سے درست ہوتا، بلکہ کفر کی فطرت لے کر پیدا ہونے پر ہلاکت اس کے حصے میں آئی اور اس کو عمل کا موقع نہیں دیا گیا۔
جبکہ اس کے برعکس جن حدیثوں پر غزالی نے اعتراض کیا ہے ان میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس کے قضا ئے سابق اور اس کے علم ازلی کو انسان کے جنتی یا جہنمی ہونے کا سبب نہیں قرار دیا گیا ہے، بلکہ اس کے اعمال کو اس کے مستحق جزا یا سزا ہونے کا سبب قرار دیا گیا ہے، غزالی اگر حق پسند ہوتے اور امانت ودیانت کا ادنی سا شائبہ ان کے اندر ہوتا تو وہ مذکورہ حدیثوں کی تشریح سورہ کہف کی مذکورہ بالا آیت سے کرتے نہ کہ ان آیتوں سے استدلال کرتے ہوئے ان حدیثوں کا انکار کرتے جن آیتوں میں تقدیر کے مسئلہ سے کوئی تعرض ہی نہیں کیا گیا ہے۔
یہاں اس امر کی جانب اشارہ کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سورہ کہف میں مذکور قصہ موسیٰ وخضر سے نہ کوئی شرعی حکم بیان کرنا مقصود ہے اور نہ اس قصہ میں خضر کی شخصیت، ان کا مقام ومرتبہ اور کائنات میں ان کی تصرفات کو بیان کرنا مقصود ہے؛ اولاً تو انہوں نے تینوں کام اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے عطا کردہ محدود اختیارات کے دائرہ میں کیے تھے اور اللہ تعالیٰ کی وسیع وعریض کائنات میں ان کو آزادانہ کوئی تصرف کرنے کا نہ تو حق حاصل تھا اور نہ وہ اس کی قدرت ہی رکھتے تھے۔
ثانیا اللہ تعالیٰ نے ان کے علم کو اپنے پاس سے عطا کردہ علم اس لیے قرار دیا ہے کہ ان کے تینوں اقدامات کا تعلق امور غیبی سے تھا اور کوئی بھی فرد بشر، یا جن یا فرشتہ غیب کا علم نہیں رکھتا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے غیب کی بعض