کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 273
﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِِنسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی، وَاَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَآئَ الْاَوْفٰی﴾ (النجم: ۳۹۔۴۱) ’’اور یہ کہ انسان کے حصے میں صرف وہ چیز آئے گی جس کے لیے اس نے کوشش کی ہوگی اور یقینا اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی پھر اسے اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ ﴿اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا﴾ (اسراء: ۱۴) ’’پڑھ اپنا نامہ اعمال آج تو خود اپنے محاسب کے طور پر کافی ہے۔‘‘ مذکورہ آیتوں میں سے کسی میں بھی قضا وقدر کے مسئلہ سے تعرض نہیں کیا گیا ہے پہلی دو آیتیں یہ بتاتی ہیں کہ انسان جو بھی سعی کرتا ہے وہ نوٹ ہو رہی ہے جس کا قیامت کے دن اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور تیسری آیت یہ بتا رہی ہے کہ قیامت کے دن اپنا نامہ اعمال دیکھ کر ہر شخص یہ فیصلہ کر سکے گا کہ وہ جزا کا مستحق ہے یا سزا کا، کوئی دوسرا اس کی نیک بختی یا بد بختی کا حکم نہیں لگائے گا۔ ان آیتوں میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے کوئی ایک بھی صحیح حدیث اس کے خلاف نہیں ہے۔ اگر غزالی حق پسند اور حق کے جو یا ہوتے تو وہ ایسی آیتیں بھی پیش کرتے یا ان کو پیش کرنا ان پر لازم تھا جو ان کی رد کردہ مذکورہ دونوں حدیثوں کے مفہوم و مدعا کے مطابق ہیں ۔ میں ان کی طرف سے یہ حق ادا کرکے ان کے خبث باطن اور ان کی حدیث دشمنی کا پردہ چاک کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قارئین کو یہ علم ہو جائے کہ منکرین حدیث علم کے پردے میں ایسے دعوے کرتے ہیں جو علم، دیانت اور حق سے عاری ہوتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں صرف یہی تو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قضائے سابق اور علم ازلی میں انسان کے لیے جو فیصلہ کر دیا گیا ہے وہ نافذ ہو کر رہے گا، مگر ان میں اشارۃً بھی یہ بات نہیں فرمائی گئی ہے کہ انسان کی اپنی کوئی مشیت اور کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس دنیا میں وہ جو عمل، اور جو سعی وجہد بھی کر رہا ہے وہ سب رائیگاں جا رہا ہے، کیونکہ قضا و قدر میں بندھے ہونے کی وجہ سے وہ مقہور ومجبور ہے۔ اب آئیے یہ دیکھئے کہ قرآن قضاد وقدر کے مسئلہ میں کیا کہہ رہا ہے؟: قصہ خضر وموسیٰ علیہم السلام کے ضمن میں حضرت خضر کے ہاتھوں جو دوسرا واقعہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک بے گناہ اور معصوم لڑکے کو ہلاک کر دیا جس پر زبان نبوت اور زبان شریعت نے ان الفاظ میں اعتراض کیا۔ ﴿قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُّکْرًا﴾ (الکہف: ۷۴) ’’موسیٰ نے کہا: کیا آپ نے ایک پاک جان کو ہلاک کر ڈالا بغیر اس کے کہ اس نے کوئی جان لی ہو، یہ تو آپ نے بہت برا کیا۔‘‘