کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 272
حدیث میں اس شخص کا نام مذکور نہیں ہے، لیکن سیرت کی کتابوں میں اس کا نام ’’قزمان‘‘ بتایا گیا ہے وہ شخص مسلمان نہیں تھا، اور مسلمانوں کی طرف سے حسب ونسب کی حمیت میں لڑ رہا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ سن کر جب مذکورہ فقرہ ارشاد فرمایا تو ایسے شخص کو مومن یا مسلم کہنے کے بجائے یہ فرمایا: ((إن الرجل یعمل عمل أہل الجنۃ، فیما یبد وللناس۔)) ایک آدمی اہل جنت جیسا عمل کرتا ہے جیسا کہ لوگوں کو نظر آتا ہے۔ ’’یعنی اس کا عمل دیکھ کر لوگ اسے مسلمان تصور کرتے ہیں جبکہ وہ حقیقت میں مسلمان نہیں ہوتا‘‘ یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بر بنائے اجتہاد نہیں فرمائی تھی بلکہ وحی الٰہی کی بنیاد پر فرمائی تھی اور آپ کے ارشاد سے یہ مفہوم بالکل نہیں نکلتا کہ انسان مجبور ہے، بلکہ یہ ارشاد آپ کے دوسرے ارشادات کی طرح اس امر کی صراحت کر رہا ہے کہ انسان اپنے ذاتی عمل سے اپنے انجام کا تعین کرتا ہے جس عمل کی اللہ تعالیٰ نے اسے آزادی بخشی ہے۔
شیخ غزالی کے دل میں یہ کھٹک ہے کہ مذکورہ دونوں حدیثیں اور ان کی طرح دوسری صحیح حدیثیں ’’جبر‘‘ کی تعلیم نہیں دیتیں اور وہ قرآن کے خلاف بھی نہیں ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں ۔ مگر ان کے دل میں حدیث اور محدثین سے جو شدید نفرت اور بغض ہے اس کی وجہ سے ان کے قلم سے زہر ابلنے لگتا ہے، فرماتے ہیں :
وہاں ایسی بہت سی احادیث ہیں جو اسی مدار پر گھوم رہی ہیں : یعنی انسان مسلوب المشیئت ہے اور کتاب سابق یا قضائے سابق میں بندھا ہوا اور مغلوب ومقہور ہے اور اس کی سعی وجہد باطل ہے اور ازل میں اس کے حق میں جو کچھ لکھ دیا گیا ہے اس کا عمل اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔[1]
بلاشبہ انسان قضائے سابق کو بدل نہیں سکتا، لیکن اس کو نہ تو اپنے حق میں قضائے سابق کا کوئی علم ہے اور نہ وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو قضائے شرعی کا مکلف بنایا ہے اور اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعہ اس کے تمام احکامات سے مطلع بھی کر دیا ہے، اور اسی قضائے شرعی کے مطابق اس کے لیے جزا یا سزا کا تعین بھی کر دیا ہے۔
مذکورہ حدیثیں دور سے بھی اس امرکی جانب اشارہ نہیں کرتیں کہ انسان کی سعی اور عمل باطل ہے، پھر ان آیات قرآنی سے استدلال کرنے کی کیا ضرورت ہے جو یہ بتانی ہیں کہ ہر انسان کو اس کی سعی وجہد کے مطابق بدلہ دیا جائے گا، اور اگر وہ اپنے دعوے میں مخلص تھے تو ان کو دونوں طرح کی آیتوں سے استدلال کرنا چاہیے تھا، مثلاً اگر انہوں نے اپنے دعوے کی تائید میں درج ذیل آیتیں پیش کی ہیں :
﴿اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی﴾ (طہ: ۱۵)
’’در حقیقت قیامت ضرور آنے والی ہے قریب ہے کہ میں اسے مخفی رکھوں تاکہ ہر نفس کو اس کی کوشش کے مطابق بدلہ دیا جائے۔‘ ‘
[1] ص ۱۸۷۔