کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 270
بیانیوں کو بھی طشت ازبام کرتا جاؤں گا۔ حدیث کی سند اور متن: ((حدثنا ابو بکر بن شیبۃ: حدثنا وکیع عن طلحۃ بن یحییٰ، عن عمتہ عائشۃ بنت طلحۃ، عن عائشۃ أم المؤمنین قالت: دعی رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم إلی جنازۃ صبیئٍ من الأنصار، فقلت: یا رسول للّٰه ! طوبی لہٰذا، عصفور من عصافیر الجنۃ لم یعمل السوء ولم یدرکہ، قال: أو غیر ذلک؟ یا عائشۃ! إن اللّٰه خلق للجنۃ أہلا، خلقہم لہا وہم فی أصلاب أبائہم، وخلق للنار أہلا، خلقہم لہا وہم فی أصلاب أبائہم۔)) [1] ’’ہم سے ابو بکر بن شیبہ نے بیان کیا، ہم سے وکیع نے طلحہ بن یحییٰ سے، انہوں نے اپنی پھوپھی عائشہ بنت طلحہ سے اور انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے گئے تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! سعادت وشاد مانی ہو اس کے لیے، جنت کے پرندوں میں سے ایک پرندہ ہے، نہ اس نے کوئی برا کام کیا اور نہ اس کا موقع ہی پایا، فرمایا: اے عائشہ! کیا اس کے سوا کچھ اور؟ در حقیقت اللہ نے جنت کو جنتیوں کے لیے بنایا ہے۔ اس نے ان کو اسی وقت اس کے لیے متعین فرما دیا ہے جب ابھی وہ اپنے باپوں کی پیٹھوں میں تھے اور جہنم کو جہنمیوں کے لیے بنایا ہے، اس نے ان کو اس کے لیے اسی وقت متعین فرما دیا تھا جب ابھی وہ اپنے باپوں کی صلبوں میں تھے۔‘‘ حدیث کی تشریح: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث پاک میں ام المومنین کی جس بات پر گرفت فرمائی ہے وہ اس بچے کے جنتی ہو نے کا حکم ہے اور ان کایہ حکم اس امر پر مبنی تھا کہ اس کی وفات بلوغت سے پہلے ہو گئی تھی اس طرح اس نے نہ تو کسی گناہ کا ارتکاب کیا اور نہ کر سکتا تھا۔ ان کے خیال میں اتنی بات اس کے جنتی ہونے کا حکم لگانے کے لیے کافی تھی۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا معاملہ سرا سر غیبی ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور یہ علم فکر واجتہاد سے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے لہٰذا کسی بھی شخص کے انجام کا حکم لگانا یا فیصلہ کرنا درست نہیں ہے قطع نظر اس کے کہ وہ شخص بالغ ہے یا نا بالغ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر یا قضا وقدر کا وہ عقیدہ بیان کیا ہے جس کی تفصیلات سے قرآن وحدیث بھری پڑی ہیں اور جس کی چند مثالیں سطور بالا میں گزر چکی ہیں ۔
[1] حدیث نمبر: ۲۶۶۲۔۳۱۔