کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 27
قبول ہے ورنہ نہیں یہ معتزلہ اور متکلمین اور ان کے ہمنواؤں کا مسلک ہے اور ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور ان میں بدقسمتی سے ایسے اصحاب جبہ وعمامہ بھی شامل ہیں جن کے ناموں سے پہلے امام العصر، االامام الکبیر، امام الحرمین اور حجۃ الاسلام اور زبدۃ المحدثین جیسے القاب لکھے جاتے ہیں ۔ حدیث کو مشروط شرعی دلیل ماننے والوں میں وہ فقہاء بھی شامل ہیں جو کسی حدیث کی صحت دیکھنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ان کے امام کے قول کے مطابق ہے یا اس کے خلاف؛ اگر مطابق ہے تو قابل قبول اور قابل استدلال ہے، اگرچہ وہ محدثین کے اصولوں کی رو سے ساقط الاعتبار، موضوع اور باطل ہی کیوں نہ ہو، اور اگر کوئی صحیح ترین حدیث ان کے امام کے قول کے خلاف اور اس سے متعارض ہے تو قابل رد، یا قابل تاویل، یا منسوخ ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ فقہ کی امہات الکتب میں ایسی روایات سے استدلال کیا گیا ہے اور ان سے شرعی احکام کا استنباط کیا گیا ہے جو جھوٹ اور باطل ہیں اور جن پر ان کے ان علماء نے عدم صحت اور عدم ثبوت کا حکم لگایا ہے جو حدیث کے علم میں مستند اور معتبر تھے اور صدیوں سے یہ کتابیں متداول ہیں اور ان میں منقول جھوٹی، موضوع اور ضعیف روایتوں پر عمل ہو رہا ہے اور ان کے بالمقابل اُن صحیح ترین حدیثوں کو قابل التفات ہی نہیں سمجھا جاتا جن کی صحت پر علمائے حدیث کا اتفاق ہے۔ قدیم زمانے سے اب تک منکرین حدیث کے حلقوں میں جو باتیں گردش کر رہی ہیں اور جن کا ذکر مسلمہ حقائق کے طور پر کیا جاتا ہے، ان میں سے چند حسب ذیل ہیں : ۱۔ حدیث کی حفاظت بذریعہ زبانی روایت ہوئی ہے اس لیے ناقابل اعتبار ہے۔ ۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک حدیث کو وہ حیثیت حاصل نہیں تھی جو حیثیت قرآن کو حاصل تھی اس وجہ سے عہد نبوی اور عہد صدیقی اور عہد عثمانی میں تو قرآن کو لکھ کر محفوظ کر دیا گیا، اور حدیث کو نہ صرف یہ کہ ضبط تحریر میں نہ لایا گیا، بلکہ اس کو لکھنے ہی سے روک دیا گیا۔ ۳۔ حدیث کا سب سے بڑا ذخیرہ اخبار آحاد سے عبارت ہے اور اخبار آحاد ظنی ہونے کی وجہ سے شرعی دلیل نہیں بن سکتیں ۔ ۴۔ بہت ساری احادیث قرآن کے خلاف ہیں اور جو چیز قرآن کے خلاف ہو وہ مسترد ہے۔ ۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ سے زیادہ مبلغ قرآن اور مفسر قرآن تھے اور آپ کو کسی طرح کی تشریعی حیثیت حاصل نہیں تھی، لہٰذا صرف وہ حدیثیں قابل قبول ہیں جو قران کی تفسیر و تبیین سے متعلق ہوں ، مگر یہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ وہ اہل زبان شعراء، ادباء اور خطباء کے استعمالات کے مطابق ہوں ، رہیں وہ احادیث جن میں شرعی احکام بیان ہوئے ہیں تو وہ اس شرط کے ساتھ قابل قبول ہیں کہ وہ احکام یا ان کی اصل قرآن میں موجود ہو، بصورت دیگر مسترد ہیں ۔