کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 268
خاموش رہنا، کسب معاش کے لیے تگ ودو کرنا، نیکی اور بھلائی کے کام کرنا، شر و فساد برپا کرنا، اور معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا وغیرہ تو اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ارادے، اس کے قضائے سابق اور اس کی مشیت کے بغیر انسان ان کو وجود میں نہیں لا سکتا، لیکن پہلی قسم کے مقابلے میں ان میں اس کو جو آزادی، اختیار اور قدرت حاصل ہے اس کو ہر شخص محسوس کر سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اعمال کی دونوں قسمیں اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہیں اور اسی کی مشیت سے جود میں آتی ہیں ، بایں ہمہ پہلی قسم میں انسان بالکل مجبور ہے اور دوسری قسم کو انسان کی جدوجہد اور کوشش سے وجود ملتا ہے اور اگرچہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کو پیدا کرنے سے پہلے ہی سے یہ معلوم ہے کہ وہ کون کون سے اعمال انجام دیں گے، مگر اس نے ان کو ان کے کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے اور نہ ان کے کرنے سے ان کو عاجز بنایا ہے، لیکن چونکہ انسان جو فعل بھی انجام دیتا ہے اور جو بات بھی زبان سے بولتا ہے وہ سب اللہ کے علم میں ازل سے ہے اور اس نے اس کائنات کے لیے اس کے وجود سے پہلے ہی سے جو نظام اور ضابطہ بنا دیا انسان کا عمل اس سے باہر نہیں جا سکتا، مزید یہ کہ انسان اپنے سارے اعمال اللہ تعالیٰ ہی کے تخلیق کردہ اعضاء سے انجام دیتا ہے اور اسی کی عطا کردہ قدرت وصلاحیت اس کو یہ اعمال انجام دینے کے قابل بناتی ہے اس لیے انسان کو مختار مطلق بھی نہیں کہا جا سکتا خلاصہ کلام یہ کہ انسانوں کے سارے اعمال اللہ تعالیٰ کی مشیت، قدرت، قضائے سابق اور علم ازلی کے دائرے میں اس ارادہ اختیار اور قدرت واستطاعت کے ذریعہ وجود پاتے ہیں جس سے اس نے انسانوں کو سرفراز فرمایا ہے۔ اس تناظر میں بندے کا ارادہ واختیار اور اس کی مشیت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے اور اس کی عطا کردہ آزادی عمل کی وجہ سے وہ اپنے اعمال میں جواب دہ ہے۔ ۵۔ یہ دنیا عالم الاسباب اور دارالعمل ہے جو قومیں اللہ تعالیٰ کے فراہم کردہ اسباب و وسائل کو استعمال میں لاتی ہیں ، قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم، نیک ہیں یا بدکار اللہ تعالیٰ ان کو عروج وسر بلندی سے نوازتا ہے دنیا کے ایک بہت بڑے رقبہ پر مسلسل ۶ صدیوں تک حکمرانی کرنے والے مسلمانوں نے جب اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اسباب وسائل کو استعمال میں لانا ترک دیا اور تقدیر الٰہی اور مشیت خداوندی کی غلط تاویلیں کرکے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کو غلط معنی دے کر عمل سے کنارہ کش ہو گئے تو غیر معمولی قدرتی وسائل رکھنے کے باجود اغیار کے محتاج اور دست نگر ہو گئے اور غیر مسلم قومیں اللہ کے عطا کردہ وسائل وذرائع کو استعمال میں لا کر اپنی تمام بداعمالیوں اور ضعیف وکمزور لوگوں پر ظلم وزیادتی کو روا رکھنے کے باوجود پوری دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں ، اور ان کی بد اعمالی اور ان کی ظلم وزیادتی ان کے مادی عروج وسر بلندی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، کیونکہ اللہ کا یہ فیصلہ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ﴾ (رعد: ۱۱) ’’در حقیقت اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلا کرتا جب تک کہ وہ اپنا کردار نہیں بدلتے۔‘‘