کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 26
دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ چیر کر دوسری طرف نکل جاتا ہے۔
جنگ صفین تک روح سے خالی دین داری میں تو خوارج کو شہرت حاصل تھی، لیکن کسی صحابی کی تکفیر سے ان کی زبانیں گندی نہیں ہوئی تھیں ، مگر جنگ صفین کے بعد انہوں نے ایک سیاسی اور عقائدی فرقے کی شکل اختیار کر لی اور وہ اس جنگ میں شریک ہونے والوں اور ’’تحکیم‘‘ کو قبول کرنے والوں کو کافر قرار دینے لگے۔
’’منکر حدیث فرقے‘‘ کی حیثیت سے تو ان کو شہرت نہیں ملی، البتہ ان کے دلوں میں حب رسول اور احترام و توقیر رسول کا کوئی جذبہ نہیں تھا، اسی وجہ سے ان کی زبانوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر نہیں آتا تھا، علمائے خوارج کی کتابوں میں احادیث سے استدلال بھی ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حدیث کو شرعی دلیل مانتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عدم احترام میں تو تمام منکرین حدیث ملوث ہیں ، کیونکہ انکار حدیث درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبے کے انکار ہی کا نام ہے اور اس مذموم صفت سے تمام ہی منکرین بفرق مراتب موصوف رہے ہیں اور ہیں ، جس میں عرب منکرین کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بد زبانیاں اور گستاخیاں کرتے ہیں اور آپ کو غلطیوں سے معصوم اور محفوظ نہیں مانتے، لیکن دوسرے مسلمانوں ، خاص طور پر حدیث کو دلیل وحجت ماننے والوں کو گمراہ اور کافر نہیں کہتے۔
برصغیر کے ملکوں میں خوارج کے طرز پر جو جماعتیں پائی جاتی ہیں وہ کسی ادنیٰ تحفظ کے بغیر حدیث کے شرعی دلیل ہونے کا انکار کرتی ہیں جس کے نتیجے میں صرف حدیث سے ثابت ہونے والے کسی بھی حکم کو نہیں مانتیں ، بلکہ کسی بات کے عقیدہ ہونے یا شرعاً قابل عمل ہونے کے لیے اس کے قرآن میں ہونے کی شرط لگاتی ہیں ، اس صفت میں ان کے ہمنوا بہت سے دوسرے لوگ بھی ہیں ، جو جماعتوں کی شکل میں بھی ہیں اور افراد کی شکل میں بھی، البتہ خارجی ذہنیت اور عقیدہ کی حامل جماعت اور عام منکرین میں وجہ امتیاز یہ ہے کہ ’’خارجی جماعت‘‘ اپنے علاوہ دوسروں کو مسلمان بھی نہیں مانتی اور ان کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھتی، یہ جماعۃ المسلمین کے نام سے معروف ہے اور اپنا ایک خاص دین رکھتی ہے، جبکہ دوسرے منکرین حدیث، حدیث کو دلیل وحجت ماننے والوں کو کافر نہیں کہتے۔
منکرین حدیث میں ایسے لوگ بھی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محض دین ابراہیمی کا مجدد مانتے ہیں ، اور ایسے بھی ہیں جو حدیث کو وحی نہیں ، بلکہ صرف رسول کا اجتہاد مانتے ہیں جو صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، ان میں ایسے بھی ہیں جو عقائد اور اصول کے قبیل کی ہر بات کو قبول کرنے کے لیے اس کے قرآن میں ہونے کی شرط لگاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور ایسے بھی ہیں جو حدیث نام کی کسی چیز ہی کو نہیں مانتے۔
منکرین حدیث میں ان لوگوں کا بھی شمار ہوتا ہے جو حدیث کے شرعی حجت ہونے کے تو قائل ہیں ، مگر مشروط صورت میں ، بایں معنی کہ اگر حدیث ان کے نظریات اور عقائد اور ان کی نام نہاد عقلی مسلمات کے مطابق ہے تو قابل