کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 25
کرنا حرام تھا اسی طرح آپ کے ارشادات پر کسی اور کے قول کو پیش کرنا، یا ان کے بالمقابل کسی اور کے قول سے استدلال کرنا حرام ہے۔ انکار حدیث کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا محرک اس مقام ومرتبے کی ناقدری سے عبارت تھا جس پر اللہ نے اپنی کتاب عزیز میں آپ کو فائز کیا ہے۔ جس طرح ہر ناحق قتل کا ارتکاب کرنے والے کا رشتہ آدم علیہ السلام کے اس بیٹے سے جڑا ہوا ہے، جس نے اپنے بھائی کو ناحق قتل کر دیا تھا، بلکہ دنیا میں جو بھی ناحق قتل ہوگا تو اس کے قاتل کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے اس قاتل بیٹے کو ملے گا، اس لیے کہ قتلِ ناحق کی ابتدا اس نے کی ہے۔[1] اسی طرح دنیا کے ہر حصے میں پیدا ہونے والے منکرین حدیث کا ان خوارج سے کسی نہ کسی طرح کا تعلق رہا ہے اور اب تک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پیدا ہوگئے تھے اور مسلمانوں میں شمار ہونے کے باوجود سچے مسلمان نہیں تھے اور ان کی سب سے بڑی پہچان یہ تھی کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدر شناس نہیں تھے، سورئہ حجرات میں ان کا ذکر ان الفاظ میں ذکر آیا ہے: ﴿قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ﴾ (الحجرات: ۱۴) ’’بدویوں نے کہا ہم ایمان لائے، کہہ دو تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یہ کہو، ہم نے اطاعت کر لی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔‘‘ اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ فتح مکہ تک جو عرب ایمان نہیں لائے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؛ کفار غالب آتے ہیں یا مسلمان؟ فتح مکہ کے بعد ان کو یقین ہوگیا کہ اب مسلمانوں کو مغلوب نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ان کے سامنے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا اعلان کر کے اطاعت قبول کر لیں ان کے ایسا کرنے کے پیچھے جان کے تحفظ اور غنیمت کے حصول کا جذبہ کار فرما تھا، مگر ان کے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عزت واحترام کے جذبات سے خالی تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی انداز میں مخاطب کرتے تھے جس انداز میں عام آدمیوں کو مخاطب کرتے تھے۔[2] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ لوگ اپنی نمازوں اور اپنے روزوں میں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر برتری رکھتے تھے، قرآن کی تلاوت بھی کرتے تھے، لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو تمیم سے تعلق رکھنے والے خارجی ’’ذی خویصرہ‘‘ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جن کی زبانیں تلاوتِ قرآن سے تر رہیں گی، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، اور وہ
[1] بخاری: ۳۳۳۵، مسلم: ۱۶۷۷۔ [2] بخاری: ۳۳۲۴، ۳۶۱۰، ۴۳۵۱، مسلم: ۱۵۷۔