کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 24
حکم بنانے والوں کے ایمان کا اثبات بھی بایں شرط فرمایا کہ وہ آپ کے فیصلہ کو کسی ادنی تأمل اور تردد کے بغیر دل کی پوری آمادگی کے ساتھ مان لیں ۔ اس آیت مبارکہ کا لفظ لفظ یہ اعلان کر رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ منفرد عظمت کا مالک ہے، اور آپ عام حکام اور قاضیوں سے بہت بلند ہیں ، اتنے بلند کہ اگر آپ کا کوئی فیصلہ دل پر ناگوار بھی گزرے تو ایمان سلب ہو جاتا ہے، اس حکم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ یہ رب محمد نے اپنے رب ہونے کی قسم کھا کر دیا ہے۔ اور سورئہ حجرات کی آیت کے الفاظ ہیں : ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ، ﴾ (الحجرات: ۲) ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اپنی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور جس طرح تم میں سے بعض بعض سے بلند آواز میں بات کرتے ہیں اس طرح بلند آواز میں اس سے بات مت کرو، ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں احساس ہی نہ ہو۔‘‘ آیت کا آغاز حرف ندا ’’یا‘‘ سے کیا گیا ہے جس سے بیان کیے جانے والے ’’حکم‘‘ کی طرف توجہ دلانا اور اس کی اہمیت کو بیان کرنا مقصود ہے، پھر ’’منادی‘‘ کو ایمان سے موصوف قرار دیا گیا ہے، جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ آنے والا حکم ایمان کا تقاضا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو وہ آداب سکھائے ہیں جن کی رعایت آپ کی مجلس میں ان پر فرض تھی اور جو ان کے مومن ہونے کا لازمی تقاضا ہے، ان آداب کو اگر ہم کھول دیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ پر یہ فرض قرار دیا تھا کہ جب وہ آپ کی مجلسوں میں حاضر ہوں تو آپ سے ادب سے اور نرمی سے بات کریں اور ان کے انداز گفتگو سے آپ کی تعظیم و توقیر اور عزت واحترام کا اظہار ہوتا ہو اور جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کریں تو ان کا انداز تخاطب وہ نہ ہو جو آپس میں ایک دوسرے سے خطاب کے وقت ہوتا ہے۔ اس آیت اور سورئہ نساء کی آیت میں جو حکم دیا گیا ہے وہ اگرچہ ان لوگوں کو دیا گیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھے، مگر چونکہ ان احکام کا تعلق آپ سے اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے تھا، محمد بن عبداللہ کی حیثیت سے نہیں تھا اور محمد بن عبداللہ کی تو وفات ہو چکی ہے اور رسول اللہ باقی ہیں ، اس لیے کہ آپ کی رسالت قیامت تک کے لیے ہے تو اس سے یہ لازم آیا کہ اختلافی امور میں آپ کو حکم بنانا، آپ کے ہر حکم اور فیصلے کو بطیب خاطر تسلیم کرنا، آپ کا ادب واحترام کرنا اور آپ کی آواز پر آواز بلند نہ کرنا وغیرہ، آپ کی ذات مبارک سے آپ کی حدیث اور سنت کو منتقل ہوگیا ہے، بایں معنی کہ ہمارے اختلافات میں ’’حکم‘‘ احادیث رسول ہیں اور جس طرح آپ کی مجلسوں میں آپ پر آواز بلند