کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 23
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض رسالت میں قرآن وحدیث کی تعلیم سرفہرست تھی ایسی صورت میں کتاب کے ساتھ حکمت کے معنی صرف حدیث ہی کے موزوں اور مناسب ہیں ، اسی وجہ سے امام شافعی، قرطبی اور ابن القیم وغیرہ نے قرآن پاک کی ان آیتوں میں جن میں یہ لفظ کتاب پر معطوف ہے اس سے حدیث ہی مراد لی ہے۔ حکمت سے حدیث مراد لینے کی تائید خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے بھی ہوتی ہے جس میں اپ نے فرمایا ہے کہ آپ کو کتاب کے مانند ایک اور چیز بھی دی گئی ہے، حدیث کے الفاظ ہیں : ((لا الفین احدکم متکئًا علی اریکتہ، یاتیہ الامر من امری مما امرت بہ، ونہیت عنہ، فیقول: لا ندری، ما وجدنا فی کتاب اللّٰه اتبعناہ، ألا والٰی أُوتیت الکتاب ومثلہ معہ۔)) [1] ’’میں ہرگز نہ پاؤں تم میں سے کسی کو اپنی مسند پر ٹیک لگائے جس کو میرے احکام میں سے کوئی حکم پہنچے، جس کا میں نے حکم دیا ہو اور اس سے میں نے روکا ہو اور وہ کہے: ہمیں کچھ نہیں معلوم، ہم نے جو کچھ کتاب اللہ میں پایا اس کی پیروی کی، غور سے سن لو، مجھے کتاب اور اس کے ساتھ اسی کے مانند اور چیز بھی دی گئی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے سورئہ نساء کی آیت نمبر ۶۵ میں اس شخص کے ایمان کی نفی کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے سے دل میں کسی بھی طرح کی کوئی تنگی پائے اور سورئہ حجرات کی آیت نمبر۲ میں اس شخص کے عمل کو ’’اکارت‘‘ قرار دیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز بلند کرے۔ یہ دونوں آیتیں دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبے کی قدرشناسی کی تعلیم دیتی ہیں جو آپ کے احکام کی بجا آوری کے علاوہ ہے۔ سورئہ نساء کی آیت کے الفاظ ہیں : ﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا، ﴾ (النسآء: ۶۵) ’’پس نہیں ، تمہارے رب کی قسم! لوگ مومن نہیں ہو سکتے تاآنکہ تم کو اپنے درمیان پھوٹ پڑنے والے اختلاف میں ’’حکم‘‘ بنا لیں ، پھر جو فیصلہ تم کرو اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور پو ری طرح سر تسلیم خم کر دیں ۔‘‘ ذرا اسلوب بیان پر غور کیجئے؛ کلام کا آغاز، آنے والی قسم کی تاکید کے طور پر حرف تنبیہ ’’لا‘‘ سے فرمایا اور قسم بھی کس کی؟ رب محمد کی، پھر باہمی اختلافات میں آپ کو حکم اور فیصلہ کرنے والا نہ بنانے والوں سے ایمان کی نفی فرمائی اور
[1] ابوداود،: ۴۶۰۴، ۴۶۰۵۔ ترمذی: ۲۶۶۵،۲۶۶۶۔ ابن ماجہ: ۱۲،۱۳۔ طبرانی: ۹۳۴۔ مسند امام احمد: ۲۳۸۷۴۔