کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 220
شیخ غزالی نے جن فقہاء کی مدح سرائی کی ہے ان کی حقیقت تو میں ’’حدیث اور فقہاء کے باب کے تحت تفصیل سے بیان کروں گا سر دست صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو حدیث سے ’’بیر‘‘ رکھتا ہے وہ قرآن کے الفاظ و معانی کا محافظ اور پاسبان نہیں ہو سکتا۔ تیرہویں حدیث:… موسی علیہ السلام اور فرشتۂ موت: حدیث کا متن: ((حدثنا یحییٰ بن موسی: حدثنا عبد الرزاق: أخبرنا مَعمر: عن ابن طاؤس، عن أبیہ ، عن أبی ھریرہ رضی اللّٰه عنہ ، قال: أرسل ملک الموتِ اِلی موسی علیھما السلام فلما جاء ہ صکہ، فرجع الی ربہ، فقال: ارسلتنی الی عبد لا یرید الموت، قال: ارجع الیہ، فقل لہ یضع یدہ علی متن ثور، فلہ بما غطت یدُہ بکل شعرۃ سنۃ، قال: أی رَب، ثم ما ذا؟ قال: ثم الموت،قال: فالآن۔ قال: فسأل اللّٰہَ أن یدنیہ من الارض المقدسۃ رمیۃ بِحجر۔ قال أبو ھریرہ: فقال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم : لو کنت ثم لأریتکم قبرہ الی جانب الطریق تحت الکثیب الأحمر)) ’’ہم سے یحییٰ بن موسی نے بیان کیا، کہا: ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے ابن طاؤس۔ عبد اللہ۔ سے، انہوں نے اپنے باپ۔ طاؤس بن کیسان۔ سے اور انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ موت کے فرشتے کو موسی علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا تو انہوں نے اس کو زور دار طمانچہ مارا کہ اس کی آنکھ پھوڑ دی، وہ فرشتہ اپنے رب کے پاس واپس گیا اور کہا: تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیج دیا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ نے فرمایا: تم اس کے پاس واپس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھے اور اس کا ہاتھ جس قدر بالوں کو ڈھانپے ان میں سے ہر بال کے بدلے ایک سال۔ موسی نے عرض کیا: اے میرے رب! پھر کیا؟ اللہ نے فرمایا: پھر موت۔ موسی نے عرض کیا: تو اسی وقت۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : موسی نے اللہ سے یہ درخواست کی کہ وہ اس کو ارض مقدس سے اتنا قریب کر دے جو پتھر پھینکنے کی مسافت کے بقدر ہو۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں وہاں ہوتا تو تم لوگوں کو راستے کے کنارے سرخ ٹیلے کے نیچے ان کی قبر دکھاتا۔‘‘[1] ابوریہ اور غزالی کی زہر افشانیاں : اس حدیث میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو دینی، اخلاقی اور عقلی اعتبار سے قابل اعتراض ہو اسی طرح اس میں
[1] بخاری: ۳۴۰۷۔ مسلم: ۲۳۷۲